اہم خبریں متفرق خبریں

جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف کونسل میں کارروائی، چیف جسٹس اور وکیل خواجہ حارث میں گرما گرمی

دسمبر 14, 2023 5 min

جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف کونسل میں کارروائی، چیف جسٹس اور وکیل خواجہ حارث میں گرما گرمی

Reading Time: 5 minutes

اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے خلاف انضباطی کارروائی کے فورم سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر اکبر نقوی کو شوکاز نوٹس کا جواب دینے کے لیے یکم جنوری تک مہلت دی ہے.

جمعرات کو جسٹس نقوی کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے کونسل نے تاریخ میں‌پہلی بار بند کمرے کی کارروائی کھلی عدالت میں کی.

جسٹس نقوی کے وکیل خواجہ حارث نے کونسل کو بتایا کہ ان کے مؤکل نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف دو درخواستیں دائر کیں، جب تک ان درخواستوں پر فیصلہ نہ ہو کونسل کی کاروائی روکی جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو یاد کروا دوں یہ جوڈیشل کونسل ہے سپریم کورٹ نہیں، جوڈیشل کونسل میں جسٹس مظاہر نقوی پر دس الزامات ہیں، آپ نے اپنا جواب ابھی تک جمع نہیں کروایا۔

سپریم جوڈیشل کونسل جواب دینے پر مجبور نہیں کر سکتی، کونسل کو جواب دینے کیلئے شرائط عائد نہیں کی جا سکتیں۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ جوڈیشل کونسل نے آپ کو جواب جمع کرانے کے لیے 14 روز کا وقت دیا۔

وکیل نے کہا کہ کونسل کو بار بار درخواستیں دیں، جواب دینے کے لیے معلومات درکار ہیں۔

وکیل خواجہ حارث کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل نے کسی خط کا جواب نہیں دیا۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل الگ آئینی ادارہ ہے،کبھی آپ کہتے ہیں کھلی سماعت کریں کبھی سماعت روکنے کا کہتے ہیں۔

وکیل کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کا جسٹس سردار طارق مسعود کو لکھے گئے خط کی کاپی درکار ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے آپ کو وہ خط پڑھنے کے لیے دیا تھا۔

وکیل نے کہا کہ اُن کو جسٹس سردار طارق مسعود کی رائے کی کاپی فراہم کی جائے۔

جوڈیشل کونسل نے خواجہ حارث کو خط کی کاپی پڑھنے کے لیے فراہم کی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ شفافیت پر یقین رکھتے ہیں، ہمارے پاس اوریجنل ریکارڈ ہے اور کوئی کاپی نہیں۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کا اس جواب سے کیا تعلق بنتا ہے؟

وکیل نے کہا کہ اس کا بالکل تعلق بنتا ہے، جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا آغاز ہو گیا سوشل میڈیا پر تو ہمارے خلاف شکایات کی روز تصدیق ہو رہی ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اکثر اوقات فضول قسم کی شکایات کونسل میں آیا کرتی ہیں،جسٹس سردار طارق مسعود نے جب شکایات پر رائے دی اس وقت میں چیف جسٹس نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آپ کے خلاف شکایات پر جسٹس سردار طارق مسعود سے رائے مانگی۔جسٹس سردار طارق مسعود نے صرف رائے دی کوئی فیصلہ نہیں دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کونسل میں وکیل کو بات کرنے کی اجازت ہم نے خود دے رکھی ہے۔ آپ کے مؤکل ہم پر الزامات در الزامات لگا رہے ہیں، کونسل کارروائی میں وکالت نہیں دیکھی جاتی جج کا مس کنڈکٹ دیکھا جاتا ہے۔
ی کونسل کی کارروائی میں وکالت کی گنجائش نہیں ہوتی پھر بھی ہم نے اجازت دی۔ آپ کا لکھا ہوا ہر خط سوشل میڈیا پر پہلے پہنچ جاتا ہے۔

چیف جسٹس کے مطابق ابھی خط ہم تک نہیں پہنچتا سوشل میڈیا پر پہلے چل جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کونسل کا ریکارڈ صرف ایک فرد یعنی سیکریٹری رکھتا ہے، آپ نے ہماری سیکرٹری کونسل (رجسٹرار سپریم کورٹ) پر ہی الزامات لگائے۔

چیف جسٹس نے جسٹس نقوی کے وکیل سے کہا کہ آپ نے الزام لگایا کہ ہماری سیکرٹری جوڈیشل کونسل ایک ٹی وی چینل کو معلومات دے رہی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے سیکریٹری جوڈیشل کونسل کو بلایا اور اس الزام بارے پوچھا۔ سیکریٹری نے رپورٹر کی تصویر دیکھنے پر کہا میں تو اس کو پہلی بار دیکھ رہی ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سیکرٹری کونسل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج رہی ہیں آپ نے ان پر اتنا بڑا الزام لگا دیا، آپ نے الزام لگانا ہے تو مجھ پر لگائیں جونیئر جوڈیشل افسر پر اس طرح کے سنگین الزام نہ لگائیں۔

چیف جسٹس کی آبزرویشن پر جسٹس مظاہر نقوی اپنی نشست سے اٹھ کر روسٹرم پر آ ئے.

چیف جسٹس نے وکیل سے کہا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں اگر کہیں تو ہم انہیں بھی سن لیتے ہیں۔

وکیل خواجہ حارث نے جسٹس مظاہر نقوی کو اپنی نشست پر جاکر بیٹھنے کی درخواست کی۔

جسٹس نقوی کے وکیل نے کہا کہ کونسل کی گزشتہ اور آج کی کارروائی کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا کہ کیوں بلایا گیا ہے، ہمیں بتایا تو جائے ہم نے کس بات کا جواب دینا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو پہلے اجلاس میں نہیں بلایا تھا بلکہ کہا تھا کہ آنا چاہیں تو آ جائیں، میرے خلاف کارروائی میں مجھے جوڈیشل کونسل نے ایک بار بھی نہیں بلایا تھا، میں اس سب سے گزر چکا ہوں۔ ہم نے آپ کو کہا تھا کہ آپ بطور آبزرور بیٹھ سکتے ہیں، آپ کہتے ہیں مجھے کیوں بلایا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کو اس لیے بلا رہے تھے کیوں کہ آپ کی عزت ہماری عزت ہے، آپ کے خلاف سوشل میڈیا پر خبریں چل جاتیں۔

کونسل کی کارروائی کے دوران خواجہ حارث اور چیف جسٹس کے درمیان گرما گرمی بھی ہوئی۔

وکیل نے کہا کہ جب بتانا چاہتا ہوں کہ ہم شوکاز نوٹس کا جواب جمع کیوں نہیں کروا سکے تو آپ ٹوک دیتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سے پوچھ رہا ہوں کون سی دستاویزات درکار ہیں.

وکیل نے کہا کہ آپ کو لسٹ فراہم کر دیتا ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے نہیں ہو سکتا کہ آپ جو مرضی بولتے رہیں اور ہم سنتے رہیں، آپ نوٹس کا جواب دینا چاہتے ہیں یا نہیں؟ جوڈیشل کونسل ایک فرد پر مشتمل نہیں ہے، کونسل کے دو ممبران لاہور ہائیکورٹ اور بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان ہیں، میں کونسل نہیں ہوں بلکہ کونسل کا ایک ممبر ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ کچھ نہیں کہنا چاہتے تو ہم کاروائی کو آگے بڑھاتے ہیں،کونسل کا ایک اجلاس ہوتا ہے اور آپ خط لکھ دیتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کونسل اجلاس عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے ہوتا ہے، آپ نے نو دسمبر کو خط لکھا اور شوکاز نوٹس کا جواب نہ دینے کی وجوہات لکھیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے میرے اور شوکت صدیقی کے نوٹس کا جواب نہ دینے کا لکھا۔

جسٹس نقوی کے وکیل نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں لکھا۔
خواجہ حارث نےجسٹس نقوی کے نو دسمبر کے خط کا حصہ پڑھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ شوکت صدیقی نے اپنے تمام خطوط کا جواب دیا، اگر آپ شوکاز نوٹس کا جواب نہیں دیں گے تو ہم کارروائی نہیں روکیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکے کہ کونسل کے خلاف درخواست دیں اور پھر بیٹھ جائیں، آپ پر الزام ہم نہیں لگا رہے، آپ کے خلاف کوئی صدارتی ریفرنس نہیں آیا۔

وکیل نے کہا کہ کہیں نہیں لکھا کہ 14 روز میں جواب نہ دیا تو سب کچھ ختم یعنی دفاع کا حق ہی ختم ہو جائے گا. اس عدالت کا بہت احترام کرتا ہوں۔

کونسل کے چیئرمین نے کہا کہ ہمارا روزانہ سماعت کرنا مشکل ہے، آپ کا جواب اطمینان بخش ہوا تو کاروائی ختم ہو سکتی ہے، شکایت کنندگان کو بھی دلائل دینا ہوں گے اور ثابت کرنا ہوگا۔ یہ معاملہ سابق چیف جسٹس نے اٹھایا میں نے نہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ ایک تکلیف دہ کام ہے، میرا اس میں کوئی فائدہ ہے نہ نقصان۔ اپنے کولیگ سے سوال کرنا مجھے اچھا نہیں لگتا، ہم اس کو پردے میں رکھنا چاہتے تھے،مجھے اپنے خلاف ریفرنس میں اوپن سماعت کا حق نہیں ملا تھا.ہم آپ کو وقت دیں گے اور ساتھ ان سے پوچھ لیں گے کون کونسی سے گواہ ہیں،اگر آپ کا اطمینان بخش ہوا تو ہم اس کاروائی کو ختم کر دیں گے.

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے