کالم

آخری سین اور اُلٹی فلم

دسمبر 15, 2023 3 min

آخری سین اور اُلٹی فلم

Reading Time: 3 minutes

فلم کے آخری منظر میں ہیرو کو لازمی مرنا ہے، ہیرو کو اُس کے انجام تک پہچانے کے لیے پوری فلم کا سکرپٹ پیچھے کی طرف لکھنا ہو گا۔

ملک کی سیاسی فلم کا سکرپٹ بھی لکھا جا چکا ہے اِس کے آخری منظر میں بچہ جمہورا نے آنسو بہاتی سپریم کورٹ کی بانہوں میں دم توڑنا ہے۔ پارلیمنٹ نے جنرل باجوہ کو ’دل پر پتھر‘ رکھ کر مدت ملازمت میں توسیع دی تو دس ماہ کے لیے آئے ’عیسیٰ کو کیا پڑی ہے کہ نظام کے گناہوں کی صلیب اُٹھا کر شاہراہ دستور پر لڑکھڑاتا پھرے،‘

انجام ناگزیر ہے مگر عوامی توقعات کے کوہ ہمالیہ سے گرے کوہ پیما کا نشان بھی بمشکل ہی ملتا ہے، اسی لیے تین گھنٹے کی فلم میں سسپنس، جذبات، گیت اور کچھ لڑائی، مار کٹائی فلم بینوں کو غیر محسوس طریقے سے آخری منظر تک پہنچا دیتی ہے۔

یہ وہ منظر ہوتا ہے جو سب سے پہلے فلمایا جا چکا ہوتا ہے اور اس کے بعد ہی باقی فلم کا سکرپٹ بھی تیار ہوتا ہے۔ ہماری اِس سیاسی فلم میں ہیرو اور ولن کے کردار اور ڈائیلاگ بھی لکھے لکھائے ہیں مگر اس فلم کی انفرادیت یہ ہے کہ ناظرین آخر دم تک یہ طے نہیں کر پائیں گے کہ ہیرو کون ہے اور ولن کون؟

جہاں ملکی مفاد کے نام پر ۲۵ کروڑ عوام کے مینڈیٹ کو ۲۰۱۸ میں چُرایا گیا وہاں اب ملکی مفاد میں ہی عوام کا مینڈیٹ برآمد کر کے ۲۰۲۴ میں لوٹانے کا وعدہ ہے۔ اور جب چوری کا پرچہ کٹا ہی نہیں تو مال مسروقہ برآمدگی کے بعد انتخابی سپرداری کا تکلف کیسا۔

مکینوں کو تھانیدار کے ہاتھوں مینڈیٹ واپس دینے کا ایک سہارا مل رہا ہے تو اس کے لیے انتخابی عمل کی سپرداری کا تردد کیسا۔

اس فلم کی کامیابی کے لیے پروڈیوسر کو کچھ کالے بکروں کی قربانی دینا ہو گی جن میں نقوی، باجوہ اور فیض شامل ہیں۔ ان بکروں نے جوانی میں پورا ملک اپنی سینگوں پر اُٹھا رکھا تھا۔

ان کی قربانی بلوچستان سے اُٹھنے والی تحریکِ پاکستان کے قانونی وارثوں کی پیشہ وارانہ انا اور تاریخ میں بقا کے لیے لازم ہے۔ ایسی قربانی سے فلم میں ایسی جان پڑ جائے گی کہ تین گھنٹے کی فلم کے آخری منظر میں بچے جمہورے کی موت پر رونے کی بجائے ناظرین گھروں کو روانہ ہوتے فلم پروڈیوسر کے بکروں کے اُس سوپ کی تعریف کر رہے ہوں گے جو انہیں وقفے میں مفت پلایا گیا تھا۔

وہ سب بھول جائیں گے کہ کس طرح ڈائیلاگ بازی اور کرداروں کی اداکاری نے انہیں انجام کا آ کر دم تک پتہ نہیں چلنے دیا۔ جذباتی مناظر دیکھ کر لوگ رو بھی دیتے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ یہ فلم ہے حقیقت نہیں۔

آج کی فلم کے سکرپٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کو مضبوط ہوتا دیکھ کر عمران خان کو استعمال کیا اور اقتدار پر بٹھا دیا، پھر خان کو مظبوط ہوتا دیکھ کر اُسے اتار کر نواز شریف کو واپس لے آئے، مگر عسکری لیبارٹری کا وائرس عوام میں پھیل چکا تھا اور اس کی ویکسین دستیاب ہی نہیں تھی۔
طے ہوا کہ مرض کے مقابلے کے لیے الیکشن کے روز لوگوں کو گھروں میں محدود کر دیا جائے اور الیکشن ہی نہ کرائے جائیں.

یہ فلم کا آخری سین تھا جو پہلے ہی فلمبند ہو چکا تھا۔ اس آخری منظر سے پہلے عوام کو معاشی ریلیف دینا لازمی مگر امریکہ اور عرب ممالک کی سرمایہ کارانہ امداد کے بغیر ناممکن تھا، عقلِ کل ہونے کے وہم، وسائل کی خوشبو اور طاقت نے اسٹیبلشمنٹ کو معیشت کے تمام شعبوں میں خندقیں کھودنے کی جانب مائل کیا۔

جمہوری امریکہ اور غیر جمہوری عرب ممالک سے اربوں روپوں کی سرمایہ کاری کے وعدوں کو تحفظ دینے کے لیے اور معاشی پالیسیوں کے تسلسل کے نام پر فیصلہ ہوا کہ فوری الیکشن ملکی مفاد میں نہیں۔ ایسے میں کیا آج کے افتخار محمد چودھری، آج کے جنرل کیانی کے ساتھ ویسا ہی ’تعاون‘ کریں گے؟ آثار تو دکھائی دیتے ہیں، پہلے مشرف کالا بکرا بنا اور آج فیض۔ فیض عدالت آ گیا تو ہم جیسے موبائل پکڑ کر خود کو جمہوریت کا سپاہی ثابت کرنے میں جُت جائیں گے، قاضی کے جانثار بے شمار ہو جائیں گے۔

فیض آباد دھرنے کمیشن کی رپورٹ، مظاہر نقوی کا انخلا، نواز شریف کی اہلیت کیس کا شور شرابا یا پھر کوئی اور بڑی پھلجڑی یا خدانخواستہ کچھ اور۔ اس سب میں ۸ فروری بھی گزر جائے گا اور اُس سے پہلے چند ارب ڈالر کا سرمایہ آ گیا تو کہا جائے گا کہ جمہوریت سے عوام کا پیٹ نہیں بھرتا، سیاست نہیں ریاست بچاؤ، ملک ہے تو آئین ہے وغیرہ وغیرہ۔

سرکاری ملازموں کو ریٹرننگ افسران الیکشن کمیشن نے لگایا، چیلنج پی ٹی آئی نے کیا، ’لاہور کے عدالتی گلوبٹ‘ نے الیکشن کمیشن کی گاڑیوں کی ونڈ سکرینیں ہی توڑ دیں۔

اب انٹرا کورٹ اپیل ہو گی یا سپریم کورٹ سو موٹو نوٹس لے گی اس سے پہلے ایسے ہی گلو بٹ نقوی نے مشرف کیس کی عدالت پر ڈنڈے برسائے تھے۔

لگتا ہے اسٹیبلشمنٹ کے پرانے والے لاڈلے کا چلا پورا ہو گیا ہے اور وہ خود مائنس ہونے کے بعد جلد الیکشن میں دلچسپی کھو چکا ہے۔ ڈنڈا پیر کا چہرہ بہت پہلے کا دیکھا ہوا ہے اس لیے اب گھونگھٹ اُٹھانے کی بھی ضرورت نہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے