کالم

بلوچ، اسلام آباد، گلاس اور گھڑا

دسمبر 27, 2023 5 min

بلوچ، اسلام آباد، گلاس اور گھڑا

Reading Time: 5 minutes

جاوید خان. صحافی، اسلام آباد

سوال یہ نہیں کہ شہراقتدار کی یخ بستہ فضاؤں میں سڑکوں پر بیٹھے بلوچ اب کے کچھ حاصل کر پائیں گے یا نہیں، یہ بھی جانے دیجیے کہ آخر انہوں نے کس برتے اور امید پر اتنا کٹھن قدم اٹھایا۔ یہ ضد بھی چھوڑیے کہ کس نے کس کو غائب کیا اور کس نے کس کا شناختی دیکھ کر کس کو قتل، یہ استدلال بھی ایک طرف کر دیجیے کہ میڈیا اس معاملے پر بُکل مار کر کیوں بیٹھا ہے، یہ نکتہ بھی فی الحال باہر ہی رکھیے کہ کون راہ لغزشاں کا مسافر ہے اور کون صراط مستقیم پر، یہ موازنہ بھی مت کیجیے کہ کس نے غلط کیا اور کون ٹھیک کر رہا ہے۔ اس سوال کو بھی لبوں کے پیچھے ہی رکھیے کہ ریاست کو کیا کرنا چاہیے اور باغیوں کو کون سی کروٹ لینی چاہیے، یہ معاملہ بھی چھوڑ دیجیے کہ کس نے ریاست کو کتنا نقصان پہنچایا اور ریاست نے کس کو، یہ بات بھی پھر سہی کہ اس وقت اہم دوراہے پر کون سیاسی کبوتر بنا ہے اور کون سیاسی گدھ، عالمی سطح پر بننے والی فضا بھی جھٹک دیجیے اور یہ اصرار بھی مت کیجیے کہ کون کس کو کس کے خلاف استعمال کر رہا ہے اور کس نے کس کا ساتھ دیا، دماغوں میں پُھنکارتے دیگر سوالات بھی جانے دجیے اور ان کے غیرتسلی بخش جوابات بھی، اس لیے نہیں کہ یہ سب غیراہم ہیں بلکہ اس لیے کہ ان سے بڑا سوال بھی بہرحال موجود ہے اور وہ یہ کہ کیا سوال کے جواب میں سوال بلکہ سوالات کی بوچھاڑ معاملے کو کسی منطقی جواب تک لے جا سکتی ہے؟

بدقسمتی سے بلوچستان اور بلوچوں کے معاملے پر صورت حال کچھ ایسی ہی ہے۔

لاپتہ افراد کے حوالے سے پوچھے سوال کے جواب میں بلوچستان میں شناختی کارڈ دیکھ کر پنجابی مزدوروں کو قتل کرنے کی وجہ کریدنا ایک ایسی باریک واردات ہے جس سے شکوک کی دھول اڑتی ہے جو آنکھوں میں بھی گھستی ہے اور ذہنوں کو بھی گومگو میں ڈالنے کا کام دیتی ہے۔

ضروری نہیں کہ ایسا کرنے والے سب دوست اسی نیت سے یہ کام کر رہے ہوں اس کی وجہ انجانے میں یا جذبات سے مغلوب ہونا بھی ہو سکتی ہے مگر کبھی کبھی انجانا پن انجانے نتائج بھی لاتا ہے اور جذبات کی رو میں حد سے زیادہ بہہ جانے سے جذبات کو مزید ٹھیس پہنچنے کا احتمال بھی رہتا ہے۔

یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی شخص سے اس کے کسی منفی کام کے بارے میں بات کی جائے تو وہ بھی آگے سے کہہ دے کہ آپ نے بھی تو فلاں منفی عمل کیا تھا اور ظاہر ہے کہ اس کے بعد بات بڑھتی ہے اور فضا ایسی مکدر ہوتی ہے کہ وہ اصل معاملہ جو حل طلب ہوتا ہے وہ کہیں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔

کچھ ایسا ہی چند ماہ پیشتر ایک خاتون اینکر نے نگراں وزیراعظم کا انٹرویو کرتے ہوئے کیاپوچھا کہ آپ کے بارے میں خیال ہے کہ آپ فلاں ادارے کے بہت قریب ہیں، جس پر وہ فوراً کہتے ہیں کہ آپ کے بارے میں بھی یہی تاثر ہے کہ آپ بھی اسی ادارے کی ترجمانی کرتی ہیں، یہ کلپ اب بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے نکال کر دیکھ لیجیے، یہ بہترین عکاسی ہے ہمارے قومی مزاج کی یعنی ایسی بات جس پر ردعمل اثبات یا نفی میں دینا مشکل ہو، کے جواب میں سامنے والے کو بھی ایسی ہی مشکل میں ڈال دو، بہرحال اس کلپ میں ہونے والی توتو میں میں، میں اس سوال کا جواب نہیں آ سکا جو اصل میں پوچھا گیا تھا اور جس طور اینکر اس پر خاموش ہوئیں اس سے لگتا یہی ہے کہ جیسے انہوں نے اس کو اپنے لیے کامپلیمنٹ ہی جانا ہو۔

ہمارے وہ دوست جو اپنی ٹویٹس میں بلوچستان میں پنجابی مزدوروں کے قتل کے نکات اٹھاتے ہیں کیا اس سوال کا جواب دینا پسند کریں گے کہ ان کو تحفظ فراہم کرنا عام بلوچوں کی ذمہ داری تھی یا ریاست کی، اگر کچھ جرائم پیشہ عناصر اسلام آباد یا لاہور میں کچھ لوگوں کو قتل کر دیں تو اس کے ذمے دار ان شہروں کے لوگ ہوں گے؟ کیا ان کو بچانا ریاست کی ذمہ داری نہیں ہو گی؟

ہمارے یہ دوست بار بار مزدوروں کے قتل کا معاملہ اٹھا کر دراصل ریاست کی ہی اتھارٹی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔

جس طرح بغیر کسی چونکہ چنانچہ کے جیتے جاگتے لوگوں کو غائب کرنے، انہیں کسی عدالت میں پیش نہ کرنے اور مقدمہ تک درج کرائے بغیر حراست میں رکھنے والے سوائے قانون شکنی کے کچھ اور نہیں کر رہے اسی طرح وہ لوگ بھی ظلم ہی کر رہے ہیں جو محض کسی علاقے سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر معصوم لوگوں پر گولیاں برساتے ہیں مگر یہ سوال کیا اس قدر ہی بے وقعت ہے کہ جواب میں کسمسایا تک بھی نہ جائے کہ اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو اس پر مقدمہ کیوں نہیں چلایا جاتا۔

یہ تو بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص ایمرجنسی میں ڈاکٹر کے پاس جائے اور ڈاکٹر اسے دوا دینے کے بجائے اس بحث میں الجھ جائے کہ تم نے فلاں چیز کیوں کھائی تھی، وہ صحت کے لیے مضر تھی اور اگر ایسی ہی چیزیں کھاتے رہو گے تو ٹھیک کیسے ہو گے اور اس سلسلہ پندونصائح میں مریض کی کراہت تک سننے سے انکار کر دے۔ ایسے میں کیا ہو گا مریض تو جان سے جائے گا ہی ڈاکٹر کی قابلیت اور ساکھ پر بھی سوال اٹھے گا۔ اس پر کچھ دوست سوال اٹھا سکتے ہیں کہ ڈاکٹر کو کبھی کبھی ’سرجری‘ بھی تو کرنا پڑ سکتی ہے، تو کرے سرجری، پہنچے مرض کی جڑ تک نہ کہ ایسے زہرآلود نشتر چبھوئے کہ مرض ناسور کی شکل اختیار کر جائے۔

کیمرہ مائیک تھام کر مذمت مذمت کی گردان کرنے والے کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ ایک سیاسی اصطلاح ہے جس کا فقط فائدہ اتنا ہوتا ہے کہ کسی عمل کے لیے ناپسندیدگی ظاہر ہو، مگر یہ ان لوگوں کے لیے شدید نقصان کا باعث بھی بن سکتا ہے جنہوں نے پھر انہی عناصر کی طرف لوٹ کر جانا ہوتا ہے جن کے لیے مذمت کا لفظ آپ زبردستی ان کے منہ میں ٹھونسنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔

کیا بلوچوں کی بے چینی کا معاملہ اس قدر پرانا ہے کہ اس کے حل کے لیے صدیاں درکار ہوں گی، کیا یہ بھی بتانا پڑے گا کہ اس کی بنیادی وجہ کون سے واقعات بنے اور کس نے مکے لہراتے ہوئے کہا تھا کہ ’آپ کو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ کس چیز نے ہٹ کیا ہے۔‘ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ اس مسئلے کو کھلے دل اور دماغ کے ساتھ سنجیدگی سے دیکھا جائے اور حل کرنے کی کوشش کی جائے۔

اس وقت بلوچستان کے معاملے پر کم و بیش ویسی ہی فضا ہے جو سموگ کی وجہ سے چند روز پیشتر تک لاہور میں تھی، وہاں تو مصنوعی بارش برسا کر صورت حال کو کسی حد تک بہتر بنا لیا گیا ہے جبکہ اول الذکر مزید گہری ہو رہی ہے۔

کاش ذہنوں پر جمی دھول جھاڑنے اور آنکھوں کے آگے چھائے جالے کو اُجالے میں بدلنے کا بھی کوئی انتظام ہو ورنہ دنیا کے آزمودہ ترین ’آدھے بھرے یا خالی‘ فارمولے والا گلاس ہمارے ہاں یونہی کرچی کرچی رہے گا اور لے دے کے ایک ایسا ’فارمولا‘ بچے گا جس میں گلاس کی جگہ گھڑا ہو گا اور وہ بھی کچا اور چِکنا، سوال کچھ یوں ہو گا ’اس گھڑے میں پانی زیادہ ہے یا ’مچھیاں‘‘، جواب ابھی سے سوچ رکھیے ہو سکتا ہے دریائے حقائق کو اسی پر پاٹنا پڑے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے