کالم

کیا پاکستان میں پاگلوں کا ہجوم بستا ہے؟

دسمبر 29, 2023 4 min

کیا پاکستان میں پاگلوں کا ہجوم بستا ہے؟

Reading Time: 4 minutes

پاکستان میں رہنا دل گردے کا کام ہے۔ آپ گندگی میں جی رہے ہیں۔ گندگی میں سانس لے رہے ہیں۔ گند کھا رہے ہیں۔ یہاں آپ کو نارمل انسان خال خال ہی ملتا ہے۔ لوگ دوسروں کے سامنے ہی گلیوں، سڑکوں پر گند پھینکتے ہیں۔

تھوک اور پان کی پیک پھینکتے ہیں۔ کسی کو شرم تک نہیں آتی۔ اب تو بچے کھچے نارمل لوگوں کو بھی انہیں ایسا کرتے دیکھ کر کراہت محسوس نہیں ہوتی۔ یہاں عدالتوں، ہسپتالوں،مساجد اور عوامی مقامات کے بیت الخلا اس قوم کا حقیقی چہرہ ہیں۔

ان جگہوں کی دیواریں ہمارے "صفائی نصف ایمان” کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ شاید جانوروں کو بھی آپشن دی جائے تو وہ یہاں رہنا پسند نہ کریں۔ یہاں سرکاری ملازم جسے جو کام کرنے کے لیے تنخواہ پر رکھا جاتا ہے، کرنا قوم پر احسان سمجھتا ہے۔ اکثریت سرکاری تنخواہ بھی لیتی ہے اور اپنا کام لے کر آنے والے شخص سے الگ پیسے بھی۔

یہاں وکیل جسے لوگ دادرسی کے لیے فیس دیتے ہیں الٹا کلائنٹ کو ہی نوچتا ہے۔ اپنی نااہلی سے لوگوں کا نقصان کرواتا ہے۔

یہاں ڈاکٹر گردے بیچتا ہے۔ ہسپتالوں میں لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیلتا ہے۔ مہنگی دوائیاں ریکمنڈ کر کے اپنا کمیشن بناتا ہے۔

یہاں دوسروں کو نیکی کی تبلیغ کرنے والا ملا خود بے ایمان اور آیتیں بیچتا ہے۔ وہ طاقتور اور جابر کا کاسہ لیس ہے۔

غریب کے لیے حدیث اور قرآن کی تفسیر و تشریح مختلف جبکہ طاقتور کے لیے اس کے من کو بھانے والی تعبیر پیش کرتا ہے۔ یہاں استاد طالبعلم کا استحصال کرتا ہے۔ یہاں تعلیم ایک کاروبار ہے۔

بچوں کو معاشرے کا مفید فرد بنانے کیلئے نہیں پڑھایا جاتا بلکہ اسے پیسے کمانے کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ بچے کو سکھانے کی بجائے رٹا لگانے والا طوطا بنایا جاتا ہے۔ یہاں بچہ مدرسے میں محفوظ ہے نہ اسکول میں۔

یہاں کے کالج، مدرسے، یونیورسٹیاں ہونق اور شاہ دولے کے چوہے پیدا کر رہی ہیں۔ یہاں آرٹ اور موسیقی وغیرہ سے لگاؤ اور اسے سکھانا و پڑھانا کفر کا راستہ اور گمراہی پر ہونے کا لیبل سمجھا جاتا ہے۔ یہاں پیر فقیر مذہب کے نام پر لوٹ کھسوٹ کرتا ہے۔

یہاں اسلام کی آگے کئی شاخیں ہیں۔ ہر شاخ کے نزدیک دوسری شاخ گمراہ، مشرک، رافضی و کافر وغیرہ ہے۔ صرف وہی اصلی مسلمان ہیں۔

یہاں، 20،19 ویں گریڈ کا سرکاری ملازم جرنیل اور جج ایسی زندگی گزارتا ہے جیسے وہ جدی پشتی نواب ہو۔ لوگ جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ اس نے یہ سارا پیسہ کرپشن اور دو نمبری سے بنایا ہے اس کا احترام کرتے اور عزت سے نوازتے ہیں۔

یہاں ریڑھی والا اور مزدور بھی اپنی استطاعت اور حیثیت کے مطابق دونمبری کرتا ہے۔ قیمت پوری لے کر آنکھ بچا کر تھیلے میں گلا سڑا پھل ڈالتا ہے۔

یہاں ہر دوسری دکان کا نام مکہ، مدینہ اور کسی مقدس شخصیت وغیرہ کے نام پر ہے لیکن اندر ملاوٹ زدہ اشیا بیچی جاتی ہیں۔ یہاں پولیس جس کے پاس مظلوم اپنی فریاد لے کر آتا ہے اس پر مزید ظلم کرتی ہے۔

یہاں تھانیدار لگنے کیلئے پیسہ لگانا پڑتا ہے یا طاقتوروں کی چمچہ گیری۔ طاقتور کیلئے تھانہ میں رویہ اور کمزور کیلئے اور ہے۔ یہاں جج بکتا ہے۔ انصاف بکتا ہے۔ عدالت بکتی ہے۔ قانون جج اور طاقتور کے گھر کے لونڈی ہے۔

یہاں لوگوں کے پاس پیسہ تو آیا لیکن تمیز اور تہذیب چھو کر نہیں گزری۔ چلتی گاڑی سے گند باہر پھینکیں گے۔ یہ گند نہیں اپنا تعارف پھینکتے ہیں۔ بڑی گاڑی والا چھوٹی گاڑی والے کو کمتر سمجھتا اور ہراساں کرتا ہے۔ پاگلوں کا ہجوم ہے۔ گاڑی شہر کے اندر بھی ہائی بیم پر چلاتے ہیں۔ دوسروں کو اذیت دینا اور اذیت میں مبتلا رکھ کر مزہ کشید کرتے ہیں۔

یہاں پتہ چلتا ہے کہ ہر شخص کی ماں عظیم تھی لیکن پتہ نہیں کیا ہوا کہ زیادہ تر بچے بے ایمان، بدکردار اور بدبودار نکلے۔ یا شاید یہ ماؤں کا عظیم ہونا بھی ویسا ہی جھوٹ ہے جیسا یہاں سنہری اور شاندار تاریخ وغیرہ کے نام پر بولا جاتا ہے۔

یہاں کہنے کو لوگ وہ اصلی معاشرہ ہیں جس نے عورت کو تحفظ و احترام دیا لیکن حقیقت میں یہ عورت کو بازار یا کام کی جگہ پر ایسے للچائی نظروں سے دیکھیں گے جیسے ابھی نوچ کر کھا جائیں۔ یہاں عورت کو انسان کم اور گوشت کی دکان زیادہ سمجھا جاتا ہے۔

یہاں ایک مخصوص کام کا لیبل لگا کر عورت کو طوائف کا نام دیا جاتا ہے لیکن جن کی وجہ سے اس عورت کا کام چلتا ہے انہیں ایسا کوئی نام نہیں دیا جاتا۔

یہاں لوگوں کی اکثریت بے ایمان ہے لیکن یہ لوگ صرف مسلمان خطے میں پیدا ہونے کی بنا پر اپنے آپ کو دوسری قوموں سے اعلی و ارفع سمجھتے ہیں۔ یہاں کے لوگ ایک پڑھائے گئے شاندار ماضی میں بستے اور خوامخواہ ہی "مستقبل ہمارا ہے اور ہم ہی اصلی قوم اور امت ہیں” کا خواب دیکھتے ہیں۔

یہاں لوگوں کی اکثریت دونمبر ہونے کے باوجود "صرف ہم ہی جنت میں جائیں گے باقی سب جہنم میں جلیں گے” کا یقین رکھتی ہے۔

یہاں مذہب سے مراد صرف نماز و قرآن پڑھنا اور ایک مخصوص حلیہ بنانا ہے۔ کہنے کو یہاں کے لوگوں کا مذہب دنیا کا بہترین مذہب ہے اور زیادہ تر معاشرہ مذہبی ہے لیکن اس بہترین مذہب، ہزاروں کی تعداد میں مدرسوں، علما، مشائخ اور ولیوں، پیروں فقیروں کے ہونے کے باوجود یہ مذہب یہاں کے لوگوں کو انسان نہیں بنا پایا اور یہاں الٹا خود یہ مذہب ہی ہمیشہ خطرے میں رہتا ہے۔ اسے خود اس ملک کے باسیوں سے ہی خطرہ رہتا ہے۔ جس کی حفاظت کے لیے یہ لوگ ہر وقت ایک دوسرے کو مارنے پر تلے رہتے ہیں۔ اس کے بچاؤ کیلئے کانفرنسیں، جلسے جلوس منعقد کرتے ہیں اور توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ کرتے ہیں۔

یہاں ایک نارمل شخص ابنارمل جیسی زندگی گزارتا ہے اور کڑھتا رہتا ہے جبکہ ایک ابنارمل شخص مزے کی اور نارمل زندگی جیتا ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے