عدلیہ پر تنقید، صحافیوں کو نوٹس قانون کے مطابق بھیجے: مرتضیٰ سولنگی
Reading Time: 3 minutesنگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر عدلیہ مخالف مہم کی تحقیقات آئین اور قانون کے مطابق ہیں۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق اتوار کو عدلیہ مخالف مہم کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی جوائنٹ انوسٹی گیشن کمیٹی (جے آئی ٹی) کے کنوینر ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اسحاق جہانگیر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مرتضیٰ سولنگی جے آئی ٹی قانون کے تحت اپنا کام کر رہی ہے، کسی کو ہراساں کیا جا رہا نہ ہی کسی کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے، قانونی نوٹس دینا متعلقہ اداروں کا اختیار ہے۔
نگراں وفاقی وزیر اطلاعات نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے تاثر کو رد کرتے ہوئے کہا کہ وزارت داخلہ نے 16 فروری کو اعلیٰ عدلیہ کے خلاف تضحیک آمیز اور بہتان تراشی پر جاری مہم کی تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی جس کا پہلا اجلاس 17 جنوری اور دوسرا اجلاس 23 جنوری کو ہوا اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت تک سوشل میڈیا کے تقریباً 600 اکائونٹس پر تحقیقات ہوئی ہیں، 100 انکوائریز رجسٹرڈ کی گئیں، تقریباً 110 افراد کو نوٹس جاری کئے گئے جن میں 22 سیاسی کارکنان یا سیاستدان اور 32 صحافی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت تک قانون کے تحت صرف نوٹس جاری کرنے کی کارروائی ہوئی ہے، کسی کو ہراساں کیا گیا اور نہ ہی کسی کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کی اب تک ہونے والی کارروائی قانون کے مطابق ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت اظہار رائے کی آزادی لامحدود نہیں ہے اس پر مناسب پابندیاں ہیں۔ آئین کے اندر درج ہے کہ مسلح افواج اور عدلیہ کے خلاف آئین اور قانون کے دائرہ سے باہر کوئی مہم نہیں چلائی جا سکتی۔
انہوں نے کہا کہ تنقید ہو سکتی ہے لیکن یہاں بات کردار کشی اور تضحیک کی ہو رہی ہے۔
نگراں وزیر اطلاعات نے کہا کہ پچھلے دنوں اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے خلاف جو کچھ ہوا ہے وہ کسی طور بھی تنقید کے زمرے میں نہیں آتا۔ انہوں نے کہا کہ تنقید تہذیب کے دائرہ میں ہونی چاہئے اور بہتان تراشی سے گریز کرنا چاہئے۔
’جے آئی ٹی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے، ہم آئین، قانون اور عدلیہ کا احترام کرتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ کسی کو ہراساں نہیں کیا جا رہا، قانونی نوٹس دینا متعلقہ اداروں کا اختیار ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی بننے کے بعد کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جے آئی ٹی بننے کے بعد سوشل میڈیا پر بہتان تراشی، کردار کشی اور غلیظ حملے کرنے کی مہم میں واضح کمی آئی ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں نگراں وفاقی وزیر نے کہا کہ ایک معاملہ عوامی رائے کا ہے اور ایک معاملہ قانون کی عدالت کا ہے، قانونی سوالات قانون کی عدالت میں رکھیں گے، پبلک ڈومین میں پچھلے کئی دنوں سے ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر پروگرام ہو رہے ہیں، یہ نہیں ہو سکتا کہ یکطرفہ طور پر حکومت، حکومتی اداروں اور اعلیٰ عدلیہ پر حملے ہوں اور ہم خاموش رہیں، حقائق سے آگاہی ضروری ہے، ہم نے حقائق سامنے رکھے ہیں، قانونی سوالات کے جواب قانون کی عدالت میں پیش کریں گے۔
اس موقع پر کمیٹی کے کنوینر ڈی جی ایف آئی اے اسحاق جہانگیر نے کہا کہ کسی شخص کو نوٹس جاری کرنے کا مطلب اس کا موقف معلوم کرنا ہے، یہ ضروری نہیں کہ ہر نوٹس پر ایف آئی آر درج ہو۔
ایف آئی اے حکام نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ جے آئی ٹی بننے سے پہلے تقریباً 60 سے 70 ملین لوگوں کی پوسٹیں تھیں، جے آئی ٹی بننے کے بعد ان میں واضح کمی آئی ہے، کئی لوگوں نے اپنے ٹویٹس اور پوسٹیں ڈیلیٹ کی ہیں۔