الوداع نواز شریف
Reading Time: 3 minutesاس کے بعد نواز شریف کبھی وزیر اعظم نہیں بن سکیں گے اور ن لیگ کبھی حکومت نہ بنا پائے گی، نواز شریف کے ساتھ باقاعدہ ہاتھ ہو گیا ہے. شھباز شریف کی بھی آخری وزارت عظمیٰ ہے جس میں آصف زرداری کا ایوانِ صدر حاوی ہو گا اور پارلیمنٹ اتنی کمزور کہ جیسے کوئی صدارتی نظام-
خیبر پختونخوا کے علی امین گنڈاپور سے پنجاب کاشھباز شریف نہیں سندھ کا سربراہ ریاست ہی ڈیل کر سکے گا-
وزارتِ عظمی برادرشھباز شریف اور اپنا صوبہ پنجاب دختر مریم نواز کے حوالے کر کے "میاں جدوں جاوے گا“ تے کسی نوں پتہ وی نہیں لگنا، ووٹروں کو جھوٹے لارے لگانے والے ایسے لیڈر کو شاید بہت پہلے ہی چلے جانا چاہیے تھا، الیکشن سے پہلے میاں دے نعرے وجانے والے اب بغلیں بجاتے نظر آئیں گے۔
وہ صفحہ اول کے سرخی نما "وزیر اعظم نواز شریف” کے اشتہارات نے بچے کھچے متوالوں کو ووٹ کے لیے باہر تو نکال لایا مگر اب انہیں دوبارہ پٹواری ہونے کا احساس ہو گا۔
ن لیگ کے ووٹروں کو اگر یہ پتہ ہوتا کہ نواز شریف حسب معمول صرف پکی پکائی واضح اکثریت پر اقتدار سنبھالیں گے تو وہ گھروں سے شھباز شریف کو وزیر اعظم بنانے نکلتے؟
کیا ن لیگ پنجاب میں ق لیگ بننے جا رہی ہے؟ اور کیا مریم نواز پنجاب کے عوام اور یوتھ کو کسی نئی سوچ اور نظریہ کے ساتھ ن لیگ کی جانب کھینچ سکیں گی؟ کیا نواز شریف کا ایسا سیاسی ورثہ ہے جس کی جانب مریم نواز فخر سے اشارہ کر سکیں گی؟
اس سے پہلے کہ اب کوئی میاں صاحب کو نکالتا میاں صاحب خود ہی پتلی گلی سے نکل لیے، اب ووٹ کے لیےباہر نکالے گئے ووٹروں کا سوال ہو گا کہ "میاں صاحب ہمیں کیوں نکالا”؟
الیکشن پانچ سال بعد ہوتے یا پانچ ماہ بعد لگتا ہے کہ میاں صاحب کو پورے پنجاب کا فارم ۴۵ خواب میں آ کر ڈرا رہا ہے ۔ ۲۰۲۴ کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد میاں صاحب نے سوچا ہو گا کہ بیچارے جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے ۲۰۱۸ میں کون سا کوئی ناقابلِ معافی گناہ کبیرہ کر دیا ہو گا۔
۹ مئی والا اندر ہے اور لیول پلئینگ فیلڈ کے لیے ۲۸ مئی والا بارہ پتھر باہر، مائنس ٹو ہو چکا- لوگ تو پوچھیں گے نا کہ کیا یہ سب کسی لندن پلان کا حصہ تھا؟ کیا اب کی بار یہی ڈیل تھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کہ شیر پنجرے میں جائے گا اور نہ ہی جنگل میں بادشاہت کے لیے چھوڑا جائے گا، جیل اور اقتدار دونوں میں واپسی نہ ہوگی اور اسکے بدلے اُس کی بیٹی کو وزارت اعلیٰ اور بھائی کو وزارت عظمی کی نوکری پر رکھ لیا جائے گا؟
نواز شریف کا وزارت عظمی سے دستبرداری کا فیصلہ درحقیقت قومی اسمبلی اور عملی سیاست سے بھی پییچھے ہٹنے کا آغاز ہے۔ لگتا ہے ان کی زندگی کے دو ہی مقاصد تھے، ایک پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانا اور دوسرا مریم بیٹی کو وزیر اعلی پنجاب بنانا۔
میاں صاحب کے سیاسی منظر نامے سے کھسکنے کی ایک اور وجہ بھی ہے، میاں صاحب کے دو انتخابی حلقوں میں نتائج ایسے مرتب کیے گئے کہ وہ ان کے گلے کی ہڈی بن گئے۔ اب ایسے نتائج کی بنیاد پر کوئی وزیر اعظم بنے اور عدالت اس کی انتخابی جیت کالعدم کر دے تو اس کی جماعت کا کیا بنے گا؟
ویسے بھی خان کو اندر کرنے والی عدالتیں دباؤ میں فیصلے نہیں کرتی ناں؟ ایسے انتخابی نتائج کے ذریعے نواز شریف کیساتھ شاید وہ ہاتھ کیا گیا ہے کہ جو وہ کسی کو بتانے جوگے بھی نہیں- بلکل ویسے ہی جیسے ایک ریٹائرڈ کرنل کو ایک پراپرٹی ٹائکون نے دفتر میں بلا کر اس کے سامنے نوٹوں کی گڈیاں رکھ دی اور خفیہ ویڈیو بنا نے کے بعد وہ پیسے بھی واپس لے لیے اور اُسے دھکے دے کر باہر نکال دیا۔ لوگوں کو بتایا کہ اِس نے مقدمے واپس لینے کے لیے رقم وصول کی تھی۔
میاں صاحب کی بھی واپسی ہوئی، سزائیں ختم ہوئی، الیکشن بھی لڑے اور بظاہر جیت بھی گئے۔ اگر نواز شریف وزیر اعظم بن جاتے تو ہم جیسے کہتے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے اور اسٹیبلشمنٹ اور اِس کے مہرے پانامہ ججوں کو عوام نے آئینہ دکھا دیا ہے، مگر بظاہر عوام کو جوتا دکھا دیا گیا ہے۔
بہتر ہوتا میاں نواز شریف ایک دھواں دار تقریر کر کے اقتدار کی دوڑ سے دستبردار ہوتے یوں خاموشی سے ایک ملزم یا مجرم کی طرح نہیں۔
میاں صاحب ہمیشہ سے ایک باپ ہی تھے قومی لیڈر نہیں، اسی لیے اِس سے بہت کم ہی پر راضی ہو گئے اس شرط پر کہ جس طرح میری بیٹی کو میری آنکھوں کے سامنے ہتھکڑی لگائی گئی تھی اُسی طرح میری آنکھوں کے سامنے اُس سے پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلی کا حلف بھی لیا جائے، ایک باپ اپنی بیٹی کی خوشیوں کے لیے کتنے خواب دیکھتا ہے مگر ایسے لیڈر کی قوم جن ڈراؤنے خوابوں کے گھیرے میں ہوتی ہے اُس کا اندازہ ایک ڈیلر کیسے کر سکتا ہے۔
پس تحریر:
۲۴ سال پہلے انگریزی روزنامے نے لیڈ لگائی
He who runs away lives to fight another day
اِس پر بے ساختہ میں نے ایک دوست سے کہا تھا
He who runs away lives to run another day