پاکستانی معیشت کو بجلی کے کارخانے کھا جائیں گے؟
Reading Time: 3 minutesسیاست ممکنات کا کھیل ہے۔
پاکستان کی سیاسی صورتحال تقریبا اسی طرح کی ہے جس طرح سنہ 2018 کے الیکشن کے بعد تھی۔
پری پول اور الیکشن ڈے کی دھاندلی کا پیٹرن بھی ملتا ہے،پی ٹی آئی چونکہ اسٹیبلشمنٹ سے ہیڈ آن لڑنے آئی تھی اس لئے ہیڈ انجری بھی گہری ہے۔
نواز شریف کی پارٹی بہادر شاہ ظفر بنی رہی اس لئے شدید زخمی ہونے سے بچ گئے۔
وہی تیس پینتیس سیٹیں ہیں جنہیں اسٹیبلشمنٹ ادھر ادھر کر رہی ہے۔
نون اور پی پی بادل ناخواستہ اسمبلیوں میں آئیں اور دھاندلی زدہ الیکشن کو قبول کر لیا تھا اور یہ کڑوی گولی اب پی ٹی آئی کو بھی کھانی پڑ گئی ہے۔
اٹھارہ کے بعد بھی ہائبریڈ حکومت بنی تھی اب بھی وہی ہو رہا ہے۔
بینظیربھٹو کو صاحبزادہ یعقوب ملا تھا اور ان کو کوئی شمشاد اختر ٹائپ کا تحفہ ملے گا۔
پی ٹی آئی میں چونکہ اوئی اللہ میں مر گئی کہنے کی شدید صلاحیت موجود ہے اس لئے ہر سمت سے اوئی اللہ کی آوازیں ہیں جبکہ عین اس وقت نون ٹکور کر رہی تھی۔
جتنا باعث شرم اٹھارہ کا اقتدار عمران کے لئے ہونا چاہیے تھا اتنا ہی نون اور پی پی کے لئے ہونا چاہیے لیکن صاحب شرم ورم اور سیاست میں کیا ربط؟
اسٹیبلشمنٹ کا ماننا ہے کہ ملکی معیشت پہلی ترجیح ہے اس لئے وہ وزارت خزانہ خود چلائیں گے۔
بلوچستان اسمبلی کو خود کنٹرول کریں گے۔
عمران خان کو خود کنٹرول کریں گے۔
بس ایک فرق یہ ہے کہ اس وقت کی عدلیہ میں سب ہی کمپرومائزڈ تھے لیکن میڈیا اتنا کنٹرولڈ نہیں تھا جتنا آج ہے۔
پاکستان میں جو ہائبریڈ سسٹم لانے اور چلانے کی کوشش ہو رہی ہے اسے مینیجمنٹ میں ایک بدترین سسٹم کہا جاتا ہے یعنی یہ علم ہی نہ ہو کہ پاور اینڈ اتھارٹی کس کے پاس ہے اور جوابدہی کس نے کرنی ہے۔
پاکستان کو ایک مستحکم سیاسی نظام کی ضرورت اس لئے ہے کہ معیشت کو مستحکم بنیاد پر استوار کیا جاسکے۔
معیشت کو اس وقت بکسے سے باہر والی سوچ درکار ہے کیونکہ اس کے امراض بہت سنگین ہیں اور اس کو روایتی طریقے سے نہیں سلجھایا سکتا،اس کو کتابی علم محدود فائدہ تو دے سکتا ہے لیکن مکمل آرام اس کو صرف غیر روایتی طریقے سے ہی آ سکے گا۔
ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ بجلی کی کمپنیوں کو کیپیسیٹی چارجز کی ادائیگی ہے۔
عالمی قوانین اور معاہدوں کے مطابق اپ اس کے پابند ہیں لیکن یہ معاہدے اپ کو کھوکھلا کر رہے ہیں اور اس کی وجوہات میں ٹرانسمیشن لائنز کا بوسیدہ اور کم ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کا شمسی توانائی کی طرف منتقل ہونا ہے۔
اس مسئلے کا حل بالکل غیر روایتی طریقے سے ہی ممکن ہوسکتا ہے مثلا گولڈن شیک ہینڈ کی طرح ان کمپنیوں کو پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ میں لیا جائے اور انویسٹرز کو ان کی انویسٹمنٹ کے عوض اسلام آباد وغیرہ میں زمینیں دی جائیں جن کو وہ دو تین سالوں ڈویلیپ کرنے کے پابند ہوں اور ان میں صرف اوور سیز پاکستانی ہی زمین خرید سکیں جن کی ریمیٹینس بھی وہ لیگل چینل سے بھیجیں (پاکستان میں جاپانی گاڑیوں کی امپورٹ اسی طرح کے چینل سے ہوتی ہے)۔
اس طرح کے حل سے کیپسیٹی چارجز اور سرکلر ڈیٹ کا مسئلہ بھی حل ہوسکے گا اور عوام پر غیر ضروری بوجھ بھی کم کیا جاسکے گا۔
سرکاری کارپوریشنز کی نجکاری میں اب شاید زیادہ مسئلہ نہ ہو کیونکہ اسے سیاسی سٹنٹ بنانے والی پارٹی پی پی پی بھی اقتدار میں ہے۔
پی ٹی آئی کی پروپیگنڈا مشین کو غیر موثر کرنے کے لئے ابھی تک جو اقدامات کئے گئے ہیں وہ پر از حماقت ہیں کیونکہ ٹوئٹر بند ہونے سے مسائل حل نہیں ہوں گے اور اس کے لئے ازالہ حیثیت عرفی کے موثر قوانین کا نافذ کرنا ہی اس مسئلے کا حل ہے اور اس قانون سازی میں الزام کنندہ کو زیادہ سے زیادہ تین ماہ اور ان کے فیصلوں کو زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کی مدت دینے سے ملک میں پولرائزیشن کم ہونے کے امکانات ہیں۔
معیشت میں اب ضرورت یہ ہے کہ انسانی ترقی اور زراعت پر توجہ کی جائے۔
صنعتکاری وغیرہ اب سیٹوریشن کا شکار ہیں۔
صرف انہی چیزوں کی صنعت چل سکتی ہے جن کا خام مال پاکستان میں موجود ہو۔
اسحاق ڈار اور پھر شوکت ترین نے ایک ہی غلطی دوہرائی تھی کہ جی ڈی پی کو تیز کرو۔
ترقی کی رفتار کو تیز کرنا پاکستان کے لئے ویسے ہی نقصان دہ ہے جیسے ایک سو چار بخار کو ایک دم اٹھانوے پر لانے کی کوشش کی جائے۔
ہمیں کم از کم پانچ سال سوا سے تین فیصد پر ترقی کرنی ہوگی تاکہ افراط زر کو قابو میں رکھا جاسکے۔
پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ میں افرادی قوت کو میٹرک سے داخل کرکے تین سال میں سکلز یعنی پلمبنگ،الیکٹریشن،ریفریجریشن وغیرہ کے کورسسز کے ساتھ لینگویج کورسسز کروائے جائیں اور اس کے کریکلم میں آسٹریلیا،نیوزی لینڈ،برطانیہ،جرمنی اور کینیڈا سے مدد لی جائے۔