پاکستان

منال کی زمین فوج نہیں حکومت کی ملکیت ہے: چیف جسٹس قاضی فائز

مارچ 12, 2024 4 min

منال کی زمین فوج نہیں حکومت کی ملکیت ہے: چیف جسٹس قاضی فائز

Reading Time: 4 minutes

سپریم کورٹ نے مارگلہ ہلز میں منال ریسٹورنٹ کی زمین کی ملکیت کے مقدمے کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے ملٹری اسٹیٹ آفس سے اس کا تمام ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریما رکس دیے کہ ریسٹورنٹ کے مالک نے فوج کے ساتھ لیز کا معاہدہ کر کے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے۔

چیف جسٹس کے مطابق ایک طرف کہا جا رہا ہے کہ سی ڈی اے مالک نہیں اور دوسری طرف سی ڈی اے سے لیز بھی چاہتا ہے۔

ریستوران کے مالک کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ ان کا موکل سی ڈی اے اور ملٹری اسٹیٹ آفس دونوں کو کرایہ دینے کے لیے تیار ہے۔

جسٹس عرفان سعادت خان نے کہا سی ڈی اے اور منال کے درمیان لیز 2036میں ختم ہونی تھی لیکن ملٹری اسٹیٹ آفس کے ساتھ نئی لیز کرکے منال نے خود ہی سی ڈی اے کے ساتھ معاہدہ ختم کر دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کرایہ دار مرضی کے مالک کا انتخاب نہیں کر سکتا، یہ خودکش حملے کی کلاسک مثال ہے۔

سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ اپریل 1910میں مارگلہ ہلز میں فوج کو چراگاہ کے لیے زمین الاٹ ہوئی، جس پر چیف جسٹس نے کہا اگر آپ کا دارومدار 1910کے ایک کاغذ پر ہے جس پر کسی کے دستخط بھی نہیں تو پھر بادشاہ سلامت چارلس کو فریق بنا لیتے کیونکہ اس وقت بادشاہ سلامت کی حکمرانی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا یہ کسی شخص کی نہیں بلکہ عوام کی ملکیت ہے اور قانون کے مطابق اسلام آباد کی زمین کی ملکیت سی ڈی اے کے پاس ہے۔

جسٹس عرفان سعادت خان نے سوال اٹھایا کہ منال کو نیا معاہدہ کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟۔
چیف جسٹس نے کہا کہ توقع ہے کہ سر پر بندوق رکھ کر یہ معاہدہ نہیں کرایا گیا۔ یہ زمین فوج نہیں حکومت کی ملکیت ہے۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سی ڈی اے نے 2019میں قبضہ فوج کے حوالے کیا تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت فوج کے سربراہ کون تھے انہیں بھی نوٹس جاری کر دیتے ہیں۔

سپریم کورٹ میں مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں منال ریسٹورنٹ لیز اور وائلڈ لائف بورڈ کی آئینی درخواستوں پر چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔

عدالت نے وفاقی حکومت سے نیشنل پارک کی آٹھ ہزار چھ سو ایکٹر اراضی کا اوریجنل ریکارڈ
طلب کر لیا اور حکم دیا کہ ملٹری اسٹیٹ آفس کا اعلیٰ افسر ذاتی حیثیت میں آئندہ سماعت پر پیش ہو ۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ایڈینشل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا جب کوئی طاقتور آ جاتا ہے تو آپ کی ہوا نکل جاتی ہے، قانون کی دھجیاں مت اڑائیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایم ای او کا کہنا ہے کہ یہ ملٹری لینڈ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کوئی ملٹری لینڈ نہیں ہوتی اراضی حکومت پاکستان کی ہوتی ہے ، سادہ سا سوال پوچھا ہے سی ڈی اے کی ملکیت ہے یا کسی اور کی، یہ آر وی ایف کیا ادارہ ہے۔

سلمان اکرام راجہ نے بتایا کہ پاکستان آرمی کا پراجیکٹ ہے جو فارمز سے متعلق اور ڈیفنس ڈویژن کا پراجیکٹ ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کیا آئین کے تحت یہ درست بات ہے ،کیا کل کو انفنٹری بریگیڈ اس طرح کی درخواست داخل کر سکتا ہے۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ملکیت کے بارے دیوانی مقدمہ ماتحت عدالت میں زیرِسماعت ہے، ہمارا کیس یہ ہے کہ منال انتظامیہ آر وی ایف اور سی ڈی اے دونوں کو کرایہ دینے کے لیے تیار ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو لیز کس نے دی تھی کیا سی ڈی اے نے دی تھی، آپ کی لیز ختم ہو گئی۔

جسٹس عرفان سعادت خان نے کہا کہ آپ ایک طرف کہتے ہیں کہ سی ڈی اے مالک نہیں، دوسری طرف آپ کہتے ہیں آر وی ایف سے لیز قانونی ہے، ایسا قطعا نہیں ہوتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اپنی مرضی سے لینڈ لارڈ کو تبدیل نہیں کر سکتے، آپ آر وی ایف کے حق میں ڈگری مانگ رہے ہیں، کہتے ہیں کہ آٹھ ہزار 63 ایکٹر اراضی 1910سے ملکیت میں ہے رکارڈ دکھا دیں، ایسے کاغذ کے ٹکڑے پر انحصار کر رہے ہیں جس پر کسی کے دستخط بھی نہیں، نومبر 2016 میں گراس فارم واپس کیا گیا اگر سی ڈی اے متاثر ہوتا تو اسے چیلنج کرتا، آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ مارگلہ نیشنل پارک کو گراس فارم میں منتقل کر دیا۔

جسٹس عرفان سعادت خان نے پوچھا کہ کیا یہ سی ڈی اے سے آرمی ٹیک اوور کیا ہے۔

عدالت کے استفسار پر منال کے وکیل نے کہا کہ جنرل باجوہ اس وقت آرمی چیف تھے جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ کہتے ہیں تو نوٹس دے کر انہیں بلا لیتے ہیں۔

سلمان اکرام راجہ نے کہا کہ میں تو ایسا نہیں کہوں گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سی ڈی اے پر تھوڑا پریشر ڈالیں یہ چیف جسٹس کو اراضی کا مالک بنا دیں گے، اگر آپ یہ کامیڈی شو جاری رکھنا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ملٹری اسٹیٹ آفس سے کون آیا ہے۔

ملٹری اسٹیٹ آفس کا نمائندہ پیش ہوا تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ اوریجنل ریکارڈ ساتھ لائے ہیں۔
نفی میں جواب ملنے پر چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا تو آپ کیا یہاں صرف چہرہ دکھانے کے لیے آئے ہیں، آئندہ سماعت پر ساری اوریجنل فائل لے کر آئیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے