ریلی نکالنا دہشت گردی کیسے؟ سپریم کورٹ سے 9 مئی ملزمان کی ضمانت
Reading Time: 2 minutesپاکستان کی سپریم کورٹ نے 9 مئی واقعہ کے چھ ملزمان کی ضمانت منظور کر لی ہے۔
ملزمان پر حمزہ کیمپ راولپنڈی کے قریب حملہ توڑ پھوڑ کا الزام تھا۔
بدھ کو جسٹس جمال خان مندوخیل سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔
دوران سماعت جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ کیا ریلی نکالنا یا سیاسی جماعت کا کارکن ہونا جرم ہے؟ طلبہ یونین اور سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگانے سے ہی آج یہ بربادی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کیا ایک ہیڈ کانسٹیبل کے بیان پر سابق وزیراعظم کو غدار مان لیں؟ خدا کا خوف کریں، یہ کس طرف جا رہے ہیں۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے پوچھا کہ ملزمان کے خلاف کیا شواہد اکھٹے کیے ہیں؟ کیا سی سی ٹی وی کیمروں سے شناخت کی گئی؟
تفتیشی نے بتایا کہ حمزہ کیمپ سمیت دیگر مقامات کے کیمرے مظاہرین نے توڑ دیے تھے، جس پر عدالتی بینچ نے کہا کہ اس کا مطلب ہے ملزمان کےخلاف کوئی ثبوت نہیں صرف پولیس کے بیانات ہیں۔
تفتیشی سے سوال کیا گیا کہ مقدمے میں دہشتگردی کی دفعات کیوں لگائی گئی ہیں؟
پنجاب حکومت کے وکیل نے بتایا کہ ملزمان نے آئی ایس آئی کیمپ پر حملہ کیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کو پھر علم ہی نہیں کہ دہشتگردی ہوتی کیا ہے، دہشتگردی سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور اور کوئٹہ کچہری میں ہوئی تھی، ریلیاں نکالنا کہاں سے دہشتگردی قرار دے دی گئی؟
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ واقعہ میں پولیس والوں کی عمومی شہادتیں ہیں، ویڈیو شہادت نہیں ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا پہلے سے کوئی فہرست دی گئی تھی کہ انھیں نامزد کر دیں؟
تفتیشی افسر نے بتایا کہ نامزد ملزمان ریلی میں شریک تھے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ کیا ریلی میں شرکت کرنا جرم ہے؟
جسٹس حسن اظہر رضوی نے پوچھا کہ سازش کی دفعات کیوں لگائی گئیں؟
تفتیشی افسر نے بتایا کہ زمان پارک لاہور میں ڈیوٹی پر مامور سپیشل برانچ کے ایک ہیڈ کانسٹیبل نے بیان دیا وہاں نو مئی کی سازش تیار ہوئی تھی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا ایک ہیڈ کانسٹیبل کی بات مانیں کہ سابق وزیراعظم غدار ہے؟
جسٹس حسن اظہر رضوی نے پوچھا کہ کیا چیک پوسٹوں پر بم دھماکوں والوں کی سازش پکڑی گئی،
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانی کی قدر کرتے ہیں، نظام کو چلنے دیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب خرم خان سے پوچھا کہ مزید کچھ کہنا چاہتے ہیں؟
انہوں نے جواب دیا کہ نہیں مزید کچھ نہیں کہنا چاہتا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ازراہِ تففن کہا کہ پھر کیا مزید کچھ سننا چاہتے ہیں تو کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے لکھا کہ عدالتی کارروائی کے دوران دی گئی آبزرویشن سے ٹرائل کورٹ متاثر نہ ہو، اگر کسی اور جرم میں ملوث نہیں تو ملزمان کو ضمانت پر رہا کیا جائے۔
تھانہ نیو ٹاؤن راولپنڈی میں اویس، نصراللہ، سیف اللہ، کامران اور وقاص نامی ملزمان پر ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔