اہم خبریں متفرق خبریں

ججز پر خفیہ ایجنسیوں کا دباؤ، چھ ججوں کے خط میں نیا کیا؟

مارچ 27, 2024 2 min

ججز پر خفیہ ایجنسیوں کا دباؤ، چھ ججوں کے خط میں نیا کیا؟

Reading Time: 2 minutes

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں نے عدالتی کیسز میں خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت پر سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ دیا ہے جس میں عدالتی معاملات میں انتظامیہ اور خفیہ اداروں کی مداخلت پر مدد مانگی گئی ہے۔

دوسری جانب عدالتی امور میں انٹیلی جنس اداروں کی مبینہ مداخلت پر مشاورت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا ہے۔

منگل کو ہائی کورٹ کے ججوں کی جانب سے لکھے گئے خط کی کاپی سپریم کورٹ کے تمام ججوں کو بھی بھجوائی گئی ہے۔ خط میں عدالتی امور میں ایگزیکٹیو اور ایجنسیوں کی مداخلت کا ذکر کیا گیا ہے۔

ہائی کورٹ کے ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط میں مطالبہ کیا ہے کہ عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مداخلت اور ججز پر اثرانداز ہونے کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔
سپریم جوڈیشل کونسل کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں نے خط ارسال کیا ہے۔ خط لکھنے والوں میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز شامل ہیں۔

خط کے متن کے مطابق ’عدالتی امور میں مداخلت پر ایک عدلیہ کا کنونشن طلب کیا جائے جس سے دیگر عدالتوں میں ایجنسیوں کی مداخلت کے بارے میں بھی معلومات سامنے آئیں گی۔ خط میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ کے کنونشن سے عدلیہ کی آزادی کے بارے میں مزید معاونت ملے گی۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے مشترکہ خط میں کہا گیا ہے کہ ’جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ارباب طاہر نے چیف جسٹس عامر فاروق سے اختلاف کرتے ہوئے عمران خان کے خلاف ٹیریان وائٹ کیس کو ناقابل سماعت قرار دیا تھا۔‘

خط کے متن کے مطابق جن ججوں نے چیف جسٹس سے اختلاف کرتے ہوئے فیصلہ دیا ان پر ایک حساس ادارے کی جانب سے ججز کے خاندان اور دوستوں سے دباؤ ڈالوایا گیا۔

خط میں موقف اپنایا گیا ہے کہ ’اس سے قبل بھی ججوں نے اپنے اوپر دباؤ کی کوششوں پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو 2023 اور 2024 میں خطوط لکھے تھے۔‘

خط میں کہا گیا ہے کہ ‏ایک حساس ادارے کی جانب سے ججز پر مسلسل دباؤ کا معاملہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے اٹھایا جا چکا ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے