پاکستان

نقوی، واوڈا اور کاکڑ ایک ہی خاندان سے: رانا ثنااللہ

اپریل 10, 2024 2 min

نقوی، واوڈا اور کاکڑ ایک ہی خاندان سے: رانا ثنااللہ

Reading Time: 2 minutes

پاکستان میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے صوبہ پنجاب میں صدر رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ محسن نقوی، فیصل واوڈا اور انوارالحق کاکڑ کا تعلق ایک ہی قبیلے سے ہے جبکہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کو ان تینوں کا کزن کہا جا سکتا ہے۔

بدھ کو فیصل آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی جو نیا عہدہ چاہیں لے سکتے ہیں، ملک اس وقت جن مشکلات میں گھرا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی رہنمائی کی ضرورت ہے، نواز شریف کی قیادت میں ملک کو مستحکم کرنے اور معیشت کی بہتری کیلئے کوششیں جاری ہیں، اس وقت ملک میں سیاسی صورتحال اچھی نہیں ہے، 8 فروری کے انتخابات کے بعد بھی سیاسی استحکام نہیں مل سکا، کچھ سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ میں ہیں مراعات بھی لے رہی ہیں اور سیاسی عدم استحکام بھی پیداکر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک اس وقت معاشی دلدل میں دھنسا ہوا ہے، 2018 میں ملک سیاسی اور معاشی طور بھی مستحکم تھا، اُس وقت کی حکومت کو ڈی ریل کیا گیا اور الیکشن میں دھاندلی کرائی گئی، ملک کو سیاسی عدم استحکام کا شکار کیا گیا جس سے معاشی حالات بھی خراب ہوئے۔

سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا پارٹی کے ساتھ اختلافات کا تاثر اور اندازے بالکل غلط ہیں، الیکشن کے بعد تمام پارٹی اجلاسوں میں شامل رہا ہوں، ہر سیاسی جماعت میں مختلف نقطہ نظر ہوتے ہیں، ہر کسی کو حق ہوتا ہے اپنا نقطہ نظر پیش کرے، پارٹی کی صدارت کی ذمہ داری پوری کر رہا ہوں جبکہ پارلیمانی سیاست میں آگے آنے والوں کو ہی حکومتی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہئیں۔

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کا رول دنیا میں نہ کہیں ختم ہوا نہ ہوگا، اسٹیبلشمنٹ 2010 میں جو تھی 2018 میں نہ تھی جو تب تھی اب نہیں ہے، اسٹیبلشمنٹ کی موجودہ لیڈر شپ انتہائی دیانتدار اور آزاد ہے جن کے کوئی ذاتی مفادات نہیں، سب کی کوشش اور خواہش سیاسی استحکام ہے جس کے لیے سیاسی قیادت کو کردار ادا کرنا ہے، اگر کوئی سیاسی جماعت باقی سیاسی جماعتوں کے ساتھ بات چیت اور مل کر چلنے کے لیے تیار نہ ہو گی تو افراتفری ہو گی۔

مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر نے کسی جماعت کا نام لیے بغیر کہا کہ ایک سیاسی جماعت یہ رویہ اپنائے ہوئے ہے اس کا لیڈر اپنی جماعت کے لوگوں کی بھی نہیں سنتا، اس انتخابات کے بعد اگر وہ حکومت بنانا چاہتے تو بنا سکتے تھے، ایسی سیاسی قوت جب تک موجود رہے گی ملک مستحکم نہیں ہو سکتا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے