فیض حمید اثاثہ تھے ضائع ہو گئے، میرا اُن سے تعلق نہیں: عمران خان
Reading Time: 3 minutesپاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید اثاثہ تھے جن کو ضائع کر دیا گیا۔
جمعرات کو عمران خان نے اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں کہا کہ ’فوج فیض سے تفتیش کر رہی ہے یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے مجھے اس سے کیا ہے۔ میرا فیض حمید سے کوئی تعلق نہیں۔‘
جنرل فیض حمید کا احتساب کر رہے ہیں اچھی بات ہے لیکن پھر یہ سب کا احتساب کریں۔
آئی بی کی رپورٹس تھیں کہ موجودہ سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان ہر وقت جنرل باجوہ کے پاس بیٹھے رہتے تھے۔
جنرل باجوہ نے نواز شریف اور شہباز شریف کے کہنے پر جنرل فیض کو ہٹایا تھا۔ جنرل فیض حمید کو ہٹانے پر میری جنرل باجوہ سے سخت تلخ کلامی ہوئی تھی۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کی بات کر کے میرے موقف کی تائید کی ہے۔
مخصوص نشستوں کے فیصلہ پر عمل نہ کر کے یہ ائین کی تیسری مرتبہ خلاف ورزی کریں گے۔
پی ٹی ائی کو مخصوص نشستیں نہ دینے اور آئین کی خلاف ورزی پر میں پارٹی کو ابھی سے تیار کر رہا ہوں۔
اڈیالہ جیل میں قائم کمرہ عدالت میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرنے سے روکنے پر ڈپٹی سپریٹنڈنٹ جیل اور عمران خان میں تلخ کلامی بھی ہوئی۔
عمران خان نے کہا کہ ’خواجہ آصف کے مطابق جنرل فیض کا 9 مئی کے واقعات سے براہ راست تعلق ہے۔ سارا معاملہ میری گرفتاری سے شروع ہوا اس کی تفتیش کیوں نہیں کی جا رہی ہے۔ اگر 9مئی جنرل فیض نے کروایا تو اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔
نو مئی دراصل لندن پلان کا حصہ تھا۔ جس نے میری گرفتاری کا آرڈر دیا وہی سازش میں ملوث ہے۔
چیف الیکشن کمشنر، چیف جسٹس قاضی فائز اور چیف جسٹس عامر فاروق لندن پلان کا حصہ تھے۔
قاضی فائز عیسی کو فیض آباد کمیشن اور بھٹو کا کیس یاد آ گیا لیکن ہماری پٹیشن نہیں سن رہے،
ان کا مسئلہ یہ ہے 8 فروری کو پی ٹی ائی الیکشن جیت گئی۔ چیف جسٹس اور الیکشن کمیشن اب فراڈ الیکشن کوچھپا رہے ہیں
ہم سڑکوں پر نکلنے لگے ہیں پارٹی کو تیار رہنے کو کہا ہے
خواجہ اصف نے کہا ہے جنرل باجوا ایکسٹینشن چاہتا تھا، یہ میرے موقف کی تائید ہے۔ جنرل باجوا نے اپنی ایکسٹینشن کے لیے میری حکومت گرائی۔
جنرل فیض کو اس لیے میں نہیں ہٹانا چاہتا تھا کیونکہ وہ طالبان اور افغان حکومت کے ساتھ انگیج تھا، وہ پاکستان میں دہشت گردی ختم کرنے کا سنہری موقع تھا۔
جنرل فیض نے ملک سے دہشتگردی ختم کرنے کا مکمل پلان بنا کر اپوزیشن کو دیا تھا۔ جنرل فیض کے طالبان کے ساتھ اچھے تعلقات تھے، وہ تین سال تک طالبان کے ساتھ مذاکرات کرتا رہا۔ میں بار بار جنرل باجوہ کو کہتا رہا جنرل فیض کو نہ ہٹائیں
جنرل باجوہ نے اپنی ایکسٹینشن کے لیے جنرل فیض کو ہٹایا اور آئی ایس ائی کو پی ٹی ائی کے پیچھے لگا دیا۔
ہمیں کہتے ہیں کہ ہم نے طالبان کے ساتھ معاہدے کیے اور انہیں واپس لا کر ٹھہرایا اگر ایسی بات ہے تو اب کراس بارڈر دہشت گردی کیوں ہو رہی ہے۔ ہمارے دور میں کیوں دہشت گردی نہیں ہوئی۔
جنرل فیض ہی ذلمے خلیل زاد اور طالبان کو میرے پاس لے کر آیا تھا، اب جتنی دہشت گردی ہو رہی ہے اس کا ذمہ دار باجوہ کو ٹھہراتا ہوں۔
’آج تمام طالبان ہمارے خلاف ہو چکے ہیں روزانہ ہمارے فوجی شہید ہو رہے ہیں۔ آپ جو مرضی اپریشن کر لیں یہ سرحد کراس کر کے دوسری جانب چلے جائیں گے اور دوبارہ واپس آ جائیں گے۔‘