کراچی کارساز حادثہ، ملزمہ ڈرائیور نتاشا کو جیل بھیجنے کا حکم
Reading Time: 4 minutesکراچی کی مقامی عدالت نے کارساز کے علاقے میں تیز رفتاری کے باعث دو شہریوں کو کچل کر ہلاک کرنے والی ملزمہ ڈرائیور نتاشا کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دیا ہے۔
بدھ کو مجسٹریٹ نےکارساز میں پیش آنے والے سنگین ٹریفک حادثے کے کیس کی مرکزی ملزمہ کو ابتدائی تفتیش کے بعد جوڈیشل کرنے کی ہدایت کی.
کراچی سٹی کورٹ نے ملزمہ کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے اسے جیل بھیجنے کا حکم دیا۔
آج عدالت میں کیا ہوا؟
کراچی کی سٹی کورٹ میں واقع عدالت میں کارساز ٹریفک حادثے کی ملزمہ نتاشا دانش کو پیش کیا گیا۔
پولیس نے ملزمہ کے 14 روزہ ریمانڈ کی استدعا کی جس پر ملزمہ کا دفاع کرنے والے وکیل نے کہا کہ مقدمے میں شامل دفعات قابل ضمانت ہیں۔
اس موقع پر پولیس کے تفتیشی افسر نے بتایا کہ مقدمے میں قتل بالسبب کی دفعہ 322 کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اور دفعہ 322 ناقابل ضمانت ہے۔
مرنے والوں کے لواحقین کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ پتہ لگایا جائے ڈرائیور خاتون نے کس قسم کا نشہ کر رکھا تھا کہ دو افراد کی جان لے لی؟
جج نے ملزمہ سے پوچھا کہ اُن کے شوہر کا نام کیا ہے؟
ملزمہ ڈرائیور نے بتایا کہ اُن کے شوہر کا نام دانش ہے۔
جج نے سوال کیا کہ پولیس نے اُن پر کوئی تشدد تو نہیں کیا؟ جس پر ملزمہ نے نفی میں جواب دیا۔
عدالت نے ملزمہ کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیجتے ہوئے آئندہ سماعت پر تفتیشی افسر کو مقدمے کا چالان پیش کرنے کی ہدایت کی۔
کارساز حادثے کی ملزمہ کو کراچی کے جناح ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد ڈسچارج کر دیا گیا ہے۔
اس حوالے سے بدھ کو ہسپتال کے نفسیاتی وارڈ کے سربراہ ڈاکٹر چنی لال نے بتایا کہ
19 اگست کو جب ملزمہ کو اسپتال لایا گیا تو ظاہری حالت ٹھیک نہیں تھی۔
اُن کا کہنا تھا کہ ملزمہ کے اہل خانہ نے بتایا کہ وہ ذہنی مریضہ ہیں لیکن اس حوالے سے وہ کوئی سابقہ ریکارڈ پیش نہ کر سکے۔
ڈاکٹر چنی لال نے بتایا کہ ملزمہ کی دماغی حالت بالکل ٹھیک ہے اور اُن کے خودکشی کرنے کے امکانات کم ہیں۔
قبل ازیں منگل کو کراچی سٹی کورٹ میں سماعت کے دوران خصوصی مجسٹریٹ نے ملزمہ کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا تھا.
ملزمہ کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ان کی موکلہ کی ذہنی حالت خراب ہے اور ان کا علاج جاری ہے۔ وکیل نے درخواست کی کہ ملزمہ کو ضمانت دی جائے تاکہ وہ اپنا علاج جاری رکھ سکیں۔
تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ جناح اسپتال کے ماہر نفسیات ڈاکٹر چنی لعل نے ملزمہ کا معائنہ کرکے اسپتال میں داخل کر لیا ہے۔ ڈاکٹر کے مطابق، ملزمہ کی حالت عدالت میں پیش کرنے کے لیے موزوں نہیں ہے، اور اس کی ذہنی حالت بہت خراب ہے۔
جج نے تفتیشی افسر سے سوال کیا تھا کہ گرفتاری کے وقت ملزمہ کا ڈرائیونگ لائسنس قبضے میں لیا گیا تھا یا نہیں۔
ملزمہ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ملزمہ کے پاس پاکستانی نہیں برطانیہ کے کا لائسنس ہے، جس پر جج نے سوال کیا کہ کیابرطانیہ کا لائسنس پاکستان میں کیسے قابل قبول ہو سکتا ہے۔
تاہم، عدالت نے درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے ملزمہ کو ایک دن کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا۔
عدالت نے اس بات پر بھی ریمارکس دیے تھےکہ اگر ملزمہ عدالت میں خود پیش نہیں ہو سکتی تو مکمل میڈیکل سرٹیفیکیٹ پیش کیا جائے۔
عدالت نے کیس کی سماعت بدھ تک ملتوی کی تھی۔
پیر کی شام کراچی کے علاقے کارساز میں ایک پراڈو گاڑی میں سوار خاتون نے سڑک پر پانچ افراد کو ٹکر مار دی۔ اس حادثے کے نتیجے میں باپ اور بیٹی موقع پر ہلاک ہو گئے، جبکہ دیگر افراد زخمی ہوئے۔ زخمیوں کو فوری طور پر طبی امداد کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا۔
سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سفید رنگ کی پراڈو گاڑی باپ اور بیٹی کو ٹکر مارنے کے بعد دیگر گاڑیوں سے ٹکرا رہی ہے۔
حادثے میں ہلاک ہونے والے باپ بیٹی کی شناخت آمنہ عارف اور محمد عارف کے نام سے ہوئی ہے، مرنے والوں والوں کے اہلخانہ کے مطابق آمنہ کے والد اسے اپنے ساتھ موٹر سائیکل پر واپس گھر لا رہے تھے کہ یہ حادثہ پیش آیا، آمنہ تین بہنوں میں سب سے بڑی تھی اور اقرا یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھی۔
موقع پر موجود شہریوں نے خاتون کو پولیس کے حوالے کیا جس کے بعد پولیس نے مقدمہ درج کرتے ہوئے خاتون کے جناح ہسپتال سے میڈیکل ٹیسٹ کرائے۔
گاڑی چلانے والی خاتون کی شناخت نتاشا دانش اقبال کے نام سے ہوئی ہے، جو ایک مشہور کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر فائز شخص کی اہلیہ ہیں۔
اس واقعے کے بعد کراچی پولیس نے سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید کے جواب میں وضاحتی بیان جاری کیا۔
پولیس نے کہا کہ سوشل میڈیا پر کچھ ایسی خبریں گردش کر رہی ہیں جن سے تاثر مل رہا ہے کہ پولیس کارروائی میں سست روی کا شکار ہے۔
پولیس نے وضاحت کی کہ حادثے کے بعد فوری کارروائی کی گئی، خاتون کو گرفتار کیا گیا، مقدمہ درج کیا گیا، اور قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے میڈیکل ٹیسٹ کروائے گئے۔
پولیس کا کہنا تھا کہ ڈسٹرکٹ پولیس ایسٹ قانون کی پاسداری کر رہی ہے اور کسی بھی قیاس آرائی کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
پولیس نے واضح کیا کہ کوئی بھی شخص قانون سے بالا نہیں ہے، اور وہ لواحقین کے دکھ میں شریک ہیں۔