متفرق خبریں

بھٹو نے آئی ایس آئی میں سیاسی سیل کیوں بنایا؟

اگست 28, 2024 8 min

بھٹو نے آئی ایس آئی میں سیاسی سیل کیوں بنایا؟

Reading Time: 8 minutes

کھوجی کے قلم سے
رواں مہینے 13 اگست کو پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے جب ایک بیان میں سابق ڈائریکٹر جنرل انٹر انٹیلی جنس سروس (آئی ایس آئی) کے لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو فوجی تحویل میں لینے اور کورٹ مارشل شروع کرنے کی خبر جاری کی تو ملکی سیاست میں جیسے بھونچال سا آ گیا۔ اور یہ بے سبب بھی نہیں تھا کیونکہ لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے آئی ایس آئی میں پہلے بطور ڈی جی کاؤنٹر انٹیلی جنس اور پھر ڈائریکٹر کے طور پر ادوار پاکستان کی سیاسی تاریخ کے سیاہ ابواب ہیں۔

نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کرنے اور پروجیکٹ عمران خان کو لانچ کرنے سے لے کر اقتدار میں لا کر ہر سطح پر اس کی مدد کرنے کا سہرا فیض حمید کے سر ہی جاتا ہے۔
اگرچہ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز سے فیض حمید کے ’اصل گناہوں‘ کا ذکر غائب ہے اور انہیں ٹاپ سٹی کیس اور ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے متعدد واقعات میں ملوث قرار دیا گیا ہے۔ لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے سیاست میں ننگی مداخلت کر کے ملکی سیاست کے گدلے پانیوں کو ایک جوہڑ میں بدل دیا۔

لیکن پاکستانی سیاست میں فوج یا ایجنسیوں کی مداخلت کو باقاعدہ ادارہ جاتی بنانے کا سہرا ایک جمہوری لیڈر کے سر جاتا ہے۔ یہ رہنما کوئی اور نہیں بلکہ ذوالفقار علی بھٹو ہیں۔ ان کے بطور وزیراعظم کیے گئے فیصلوں میں سے کچھ ایسے ہیں جن کا ایک آسیب کی طرح آج بھی اس ملک پر سایہ ہے۔ صنعتوں کو قومیانے کا فیصلہ ہو یا ایجنسیوں کی سیاست میں مداخلت کا باضابطہ در کھولنے کا معاملہ ہو، انگلیاں انہی پر ہی اٹھتی ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو پر الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے ’سیاست میں مداخلت‘ کے لیے ملک کی سپریم اینٹلیجنس ایجنسی آئی ایس آئی میں ایک انٹرنل ونگ کھولا۔

آئی ایس آئی کا یہ ’سیاسی ونگ‘ کئی بار سرخیوں اور سیاسستدانوں کی تنقید کی زد میں رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں نواز شریف اور عمران خان باقاعدہ آئی ایس آئی کے افسران کے نام لے کر ان پر تنقید کے نشتر چلاتے رہے ہیں۔
تجزیہ کار اور مبصرین سنہ 2011 سے تحریک انصاف کے سیاسی ابھار کے پیچھے بھی ایجنسیوں کا ہاتھ بتاتے ہیں۔ یہاں تک کے اسٹیبلشمنٹ کے دیرینہ ساتھی چودھری پرویز الٰہی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ انکشاف کیا تھا کہ ’ان کے پارٹی سے بندے توڑ کر تحریک انصاف میں لے جانے کا سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد انہوں نے آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی سے شکایت کی۔‘

لیکن ایسے میں کچھ سوالات بنتے ہیں کہ ایک جمہوری رہنما نے اپنے دور حکمرانی میں ’فوج کی سیاست میں مداخلت‘ کا باضابطہ در کیوں کھولا اور کیا اس سے قبل ایجنسی کے اندر ایسا کوئی سیل موجود نہیں تھا؟

ملک کے سینیئر صحافی اور بھٹو دور میں زِیرعتاب رہنے والے مجیب الرحمان شامی نے مظفر محمد علی کو ان کی کتاب ’پاکستان کے راز داں صحافی: صفدر میر سے حامد میر تک‘ کے لیے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’یہ بھٹو صاحب تھے جنہوں نے آئی ایس آئی کا انٹرنل ونگ کھولا، اس طرح ایجنسیوں کا صحافت وغیرہ میں دخل شروع ہوا اس سے پہلے آئی ایس آئی یہ کام نہیں کرتی تھی۔‘

تاہم سینیئر صحافی اور کالم نگار وجاہت مسعود نے راقم کو بتایا کہ ’سنہ 58 میں ملک میں فوج آ گئی تھی اور مشرقی پاکستان سمیت سیاسی فرنٹ آئی ایس آئی ہی دیکھ رہی تھی۔ بھٹو صاحب نے اس کام کو جاری رکھا۔ اس دوران جنرل غلام جیلانی اس ادارے کے ڈائریکٹر رہے اور انہوں نے ہی بھٹو کی کشتی میں سارے پتھر ڈالے، بعد میں یہ ضیا دور میں پنجاب کے گورنر بھی رہے۔‘

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’آٹھ فروری 1975 کو حیات محمد خان شیرپاؤ کے قتل کے بعد نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) پر پابندی لگا دی گئی اور اس کے بڑے رہنماؤں کو گرفتار کر کے حیدر آباد ٹریبونل کے تحت ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس حوالے سے تمام ثبوت آئی ایس آئی نے اکٹھے کیے تھے اور عدالت میں اس حوالے سے کیا کہیں گے، اسی لیے سیاسی سیل بنایا گیا جس کا بنیادی مقصد اپنے سیاسی مخالفوں کو فکس کرنا تھا۔‘

دوسری جانب سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مجاہد بریلوی سمجھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں آئی ایس آئی کو اتنے زیادہ اختیارات اس لیے دیے گئے کہ ان کے خلاف چلنے والی اپوزیشن کے پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی تحریک کو ’بیرونی فنڈنگ‘ مل رہی تھی۔

ذوالفقار علی بھٹو کا یہ فیصلہ خود ان کے اور ان کی بیٹی کے لیے وبال جان بنا رہا۔ بینظیر بھٹو تاعمر مرگ فوج یا ایجنسیوں کی ’سیاست میں مداخلت‘ کی شدید ناقد رہیں۔
لیکن پہلے بات کرتے ہیں بھٹو کے حوالے سے، جس کے حوالے سے ایک واقعہ پاکستان پیپلز پارٹی کے اولین رہنماؤں میں سے ایک ڈاکٹر مبشر حسن نے اپنی کتابThe Mirage of Power میں لکھا:
’نومبر 1974 میں ڈاکٹر مبشر حسن کی وزیراعظم ہاؤس میں ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے کہا کہ وہ ملک، پارٹی اور ان کے مستقبل سے متعلق بہت پریشان ہیں۔ ان کا پارٹی چیئرمین سے کہنا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی سیاسی قوت میں کمی آ رہی ہے اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ ان کے لیے باعثِ تقویت نہیں اور جب وہ بہت زیادہ کمزور ہو جائیں گے تو یہ سب ان کا ساتھ چھوڑ جائیں گے۔‘

ڈاکٹر مبشر حسن نے لکھا کہ ’گزشتہ سات برسوں میں بھٹو کے ساتھ ان کی سب سے زیادہ سخت زبان میں گفتگو تھی جس کو انہوں نے توجہ سے سنا اور پوچھا کہ آخر وہ چاہتے کیا ہیں؟ اس پر ڈاکٹر مبشر حسن نے جواب دیا کہ وہ انہیں یہ بتانے آئے ہیں کہ وہ لوگوں میں اپنی پاور بیس قائم کریں۔
وہ تھوڑی دیر توقف کے بعد بولے ڈاکٹر تم مجھ سے جو کروانا چاہتے ہو اسے کرنے کی مجھ میں طاقت نہیں ہے۔ یہ جواب سن کر مبشر حسن ٹوٹ کر رہ گئے۔‘
ڈاکٹر مبشر حسن کا کہنا تھا کہ وہ طاقتور وزیراعظم سے اس قسم کے جواب کی بالکل توقع نہیں کر رہے تھے۔
دونوں کافی دیر چپ سادھے رہے، جس کے بعد ڈاکٹر مبشر حسن نے یہ کہہ کر سکوت توڑا کہ ’میں ذرا آپ کا فون دیکھ لوں۔ اس کے بعد ڈاکٹر مبشر حسن نے جیب سے چابیوں کا گچھا نکالا، کچھ پیج ڈھیلے کیے اور فون سے ایک آلہ الگ کر کے بھٹو کے سامنے کیا۔
آپ جانتے ہیں یہ کیا ہے؟ ڈاکٹر مبشر نے بھٹو سے پوچھا ۔
بھٹو نے کہا: نہیں۔ یہ کیا ہے۔
یہ آپ کا فون بگ کرنے کے لیے ہیں، ڈاکٹر مبشر حسن نے جواب دیا۔ اس پر بھٹو نے اپنے بے ساختہ ردعمل میں کہا یہ حرام زادے میرا فون بھی ٹیپ کرتے ہیں۔
اس کے بعد بھٹو نے ڈاکٹر مبشر حسن سے پوچھا کہ انہیں کیسے علم ہوا کہ یہ ڈیوائس فون بگ کرنے کے لیے تھی۔ اس پر انہوں نے بتایا کہ جب انہوں نے اپنے فون میں اس کا پتا چلانے کے بعد ماہر کو دکھایا تو ان پر یہ بات کھلی۔ اس کے بعد بھٹو نے نصرت بھٹو کو بلایا اور جب وہ کمرے میں داخل ہوئیں تو بھٹو نے ڈیوائس ان کے ہاتھ میں دی اور کہا:
مبشر کا کہنا ہے کہ یہ میرے ٹیلی فون کو بگ کرنے کے لیے تھی۔ نصرت بھٹو نے لائٹ بلب کے سامنے لے جا کر دیکھا تو کہا:
یہ تو ہمارے گھر کے سارے فونز میں ہے۔ بھٹو یہ سن کر ہکا بکا رہ گئے اور اہلیہ سے پوچھا کہ یہ سب اس کے علم میں کیسے آیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ تو شاہنواز نے اپنے کمرے کے فون میں دیکھی تو اسے شک گزرا کہ آپ نے انسٹال کی ہے تاکہ گرل فرینڈز کے ساتھ گفتگو سن سکیں۔ اس نے جب باقی فون چیک کیے تو ان میں بھی اسے موجود پا کر وہ مطمئن ہوا۔‘
ذوالفقار علی بھٹو نے جس عفریت کو قانونی شکل دی تھی اس کا شکار ان کی لاڈلی بیٹی بینظیر بھٹو بھی بنی اور سنہ 1988 میں ان کا راستہ روکنے کے لیے آئی ایس آئی نے مسلم لیگ اور دوسری جماعتوں پر مشتمل ایک اتحاد قائم کیا جسے آئی جے آئی کا نام دیا گیا۔
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل ساری عمر دھڑلے سے آئی جے آئی بنانے کی ذمہ داری قبول کرتے رہے۔
اس اتحاد کے سیاستدانوں کو بشمول نواز شریف مالی امداد بھی فراہم کی گئی تاہم نواز شریف ہمیشہ اس الزام سے انکاری رہے ہیں۔
آئی جے آئی رہنماؤں کو مالی امداد دینے کا سکینڈل سنہ 1994 میں مہران بینک سکینڈل کے نام سے سامنے آیا۔ اس کے خلاف ایئر مارشل (ر) اصغر خان نے سپریم کورٹ میں ایک پیٹیشن بھی فائل کی جس میں سابق آرمی چیف جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ کو بھی نامزد کیا گیا۔
کئی برسوں تک چلنے والا یہ کیس سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں ایک بار پھر سرخیوں کی زینت بنا اور چھ ماہ چلنے کے بعد عدالت نے 170 صفحات پر مشتمل ایک فیصلے میں جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ سمیت دوسرے افسران کے خلاف آئین سے غداری کا مقدمہ شروع کرنے کا کہا۔ لیکن ایف آئی اے ڈائریکٹر نے سنہ 2018 میں عدالت کے روبرو بیان دیا کہ ’اس لین دین کا کوئی گواہ، کوئی تحریر شدہ یا زبانی ثبوت نہیں ہے، لہذا یہ محض ایک جھوٹ ہے۔‘
اس حوالے سے جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ نے اپنی کتاب ’اقتدار کی مجبوریاں‘ میں لکھا کہ ’مجھ پر الزام ہے کہ میں نے آئی ایس آئی کے ساتھ مل کر 1990 کے انتخابات میں بینظیر بھٹو کی پارٹی کے خلاف کام کیا، ان کا مینڈیٹ چرایا جس سے فوج کی بھی ہتک ہوئی۔ ایسا ضرور ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی، کیوں ہوئی، کیسے ہوئی اور اس کارروائی میں میرا کیا عمل دخل تھا یہ جاننا ضروری ہے۔‘
’سنہ 1975 میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ایک خصوصی نوٹیفکیشن (این-75) جاری کیا جس کے تحت آئی ایس آئی کو قومی انتخابات میں لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کی ذمہ داری دی گئی۔ ایک سال بعد 1976 میں جب قبل از وقت انتخابات کا فیصلہ ہوا تو آئی ایس آئی نے بھرپور کارروائی کی، احتجاج شروع ہوا کہ دھاندلی ہوئی ہے، پی این اے کی تحریک چلی جو جنرل ضیا الحق کی فوجی مداخلت کا سبب بنی۔‘
جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ نے لکھا ’بھٹو کو پھانسی ہوئی اور اس کے بعد جو بھی صدر آیا اس کے ہاتھ میں 58-2(b) کا ہتھیار بھی تھا۔ اس طرح این-75 اور 58-2(b) جیسے مہلک ہتھیاروں کا 1977 سے 2013 تک بے دریغ استعمال کیا گیا اور اپنی مرضی کی حکومتیں بنائی گئیں۔‘
تاہم وجاہت مسعود اس خصوصی نوٹیفکیشن (این-75) کی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہیں اور اسے غیر قانونی اور غیر آئینی سمجھتے ہیں۔
’ایک فوجی سیاست میں حصہ نہ لینے کا ہدف لیتا ہے، اس حلف کے ساتھ یہ سیاسی سیل ایک تضاد ہے۔‘
کیا بھٹو دور سے قبل آئی ایس آئی کا سیاسی سیل نہیں تھا؟
ہین کیسلنگ نے اپنی کتاب ’ Faith, Unity, Discipline: The Inter-Service-Intelligence (ISI) of Pakistan میں لکھا کہ ’جب ایوب خان نے مسلح افواج کی کمان سنبھالی تو آئی ایس آئی میں ایک ڈویژن تخلیق کیا گیا جس جس کا محور انڈیا تھا لیکن اس کا بنیادی کام ملکی سیاست میں استحکام لانا تھا۔‘
’اس مقصد کے لیے اینٹلیجنس ایجنسیوں کا رپورٹنگ سٹرکچر تبدیل کر دیا گیا۔ ملٹری اینٹلیجنس (ایم آئی) براہ راست چیف آف جنرل سٹاف کو رپورٹ کرنے لگی اور آئی ایس آئی اور آئی بی براہ راست مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو رپورٹ کرنے لگیں۔ آئی ایس آئی کے کرنل خواجہ محمد اظہر کی زیرِنگرانی سیاسی اور فوجی مخالفوں پر نظر رکھی جانے لگی۔ اس عارضی دورانیے میں وہ آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر تھے اور اپنے اوپر والوں کو مطمئن کرنے کے لیے ذاتی طور پر تفتیش کرتے تھے۔ اپنے فوجی کیریئر کے اختتام پر یحییٰ خان کے دور میں انہیں تھری سٹار جنرل بنا دیا گیا اور اس کے بعد وہ صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) کے گورنر بھی رہے۔‘
اندرونی سیاست اب آئی ایس آئی کی توجہ کا مرکز تھی، اور باقی ایجنسیاں بھی اس دوڑ میں شامل ہو چکی تھیں۔
افراد، جماعتوں، تنظیموں، یونیورسٹیوں اور پریس پر نظر رکھی جاتی تھی یہاں تک کہ سیاسی مخالفین کو ختم کرنے کا بھی سوچا جاتا تھا۔

ہین کیسلنگ کے مطابق ’ایسا ہی ایک حل ایوب خان نے اپنے سیاسی مخالف نوابزادہ نصر اللہ خان کے لیے تجویز کیا تھا لیکن آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر بریگیڈیئر ریاض حسین ان کا ذہن بدلنے میں کامیاب ہو گئے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے