پاکستان

’سپریم کورٹ پارلیمان کی گیٹ کیپر نہیں‘، نیب ترامیم بحال

ستمبر 6, 2024 2 min

’سپریم کورٹ پارلیمان کی گیٹ کیپر نہیں‘، نیب ترامیم بحال

Reading Time: 2 minutes

پاکستان کی سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے اپنے فیصلے کو انٹراکورٹ اپیلوں میں ختم کر دیا ہے۔

جمعے کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف دائر انٹراکورٹ اپیلوں پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔

ستمبر 2023 میں سابق وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیا تھا۔

فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ جسٹس بندیال کے بینچ کا پہلے والا فیصلہ درست نہیں تھا اور کالعدم قرار دی گئیں نیب ترامیم بحال کی جا رہی ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ’سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے لیے گیٹ کیپر کا کردارادا نہیں کر سکتی۔ چیف جسٹس اور ججز پارلیمنٹ کے لیے گیٹ کیپر نہیں ہو سکتے۔ سپریم کورٹ کو جب بھی ممکن ہوقانون سازی کوبرقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، عمران خان نیب ترامیم کو آئین سے متصادم ثابت کرنے میں ناکام رہے۔‘

رواں سال چھ جون کو نیب آرڈیننس میں ترامیم سے متعلق وفاق اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے سپریم کورٹ میں دائر اپیلوں پر محفوظ فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے ان اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

یاد رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے نیب آرڈیننس میں کی جانے والی ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

بعد ازاں 15 ستمبر 2023 کو اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے دو ایک کی اکثریت سے پارلیمنٹ سے منظور کی جانے والی ان ترامیم کو کالعدم قرار دیا تھا۔
اس تین رکنی بینچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے اس فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔

اس فیصلے کے خلاف اس وقت کی پی ڈی ایم کی حکومت نے اپیل دائر کی تھی جو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ تک سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی تھی۔
جسٹس قاضی فائز عیسی کے چیف جسٹس بننے کے بعد یہ اپیل سماعت کے لیے مقرر کی گئی تھی۔

وفاق اور دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے دائر ان اپیلوں پر عدالت نے سابق وزیراعظم عمران خان کو بھی نوٹس جاری کیا تھا اور وہ اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے ان اپیلوں پر ہونے والی عدالتی کارروائی میں شامل ہوئے تھے۔

ان اپیلوں کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجربینچ نے کی تھی۔ بینچ میں جسٹس امین الدین خان، جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بھی شامل تھے۔

نیب آرڈیننس میں کی جانے والی ترامیم میں سب سے اہم یہ ترمیم تھی کہ پچاس کروڑ روپے تک کی بدعنوانی کا معاملہ نیب کو بھیجا جائے گا جبکہ اس سے کم بدعنوانی کے معاملات ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ دیکھے گی۔

سابق وزیراعظم عمران خان الزام عائد کرتے ہیں کہ نیب میں ترامیم شریف خاندان اور زرداری خاندان نے اپنی کرپشن چھپانے کے لیے کی ہیں۔

فیصلے سناتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے اضافی نوٹس تحریر کیے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلہ متفقہ ہے تاہم جسٹس اطہر من اللہ نے عام فریقوں کی اپیل پر ترامیم بحال کیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے نوٹ میں لکھا ہے کہ وفاقی حکومت کا استحقاق نہیں تھا کہ انٹراکورٹ اپیل دائر کرے۔
اپنے اضافی نوٹ میں انہوں نے لکھا ہے کہ اپیل صرف متاثرہ فریق ہی دائر کر سکتا ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے