نیا آئی فون، ٹیکنالوجیز نہایت مفید ہیں لیکن
Reading Time: 4 minutesکامران صاحب طفیل نے پچھلے دنوں منملسٹک اپروچ یعنی زندگی میں اشیا پر کم سے کم انحصار کی طرف توجہ دلائی، ان کی پوسٹ میں کچھ سوال تھے جن سے اس گفتگو کی تحریک پیدا ہوئی۔ ایک سوال یا تبصرہ آئی فون سے متعلق لوگوں کے رویے پر تھا جس میں وہ بڑی تعداد میں ایپل کے کارو باری مراکز کے باہر کھڑے رہتے ہیں تاکہ سب سے پہلے نیا آئی فون لے سکیں۔ یہ حرکت کیسی (اچھی یا بری) ہے کو دیکھنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے یہ حرکت ہے کیا؟
کسی بھی زمانے (وقت کے اعتبار سے تقسیم کرلیں یا نظریات و فلسفہ یا دوسرا لفظ ورلڈ ویو بول لیجیے) کچھ ٹیکنالوجیز (یہاں ٹیکنالوجی کا لفظ پھیلا کر بولا جا رہا ہے جن میں تصورات اور اداروں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے) ایسی ہوتی ہیں جن کے بغیر سماج اور اس سماج میں بسنے والے انسان کا تصور ناممکن ہوجاتا ہے۔ یہ دہرا تعلق ہوتا ہے جس میں نہ انسان اپنے آپ کو ان ٹیکنالوجیز کے بغیر تصور کرسکتا ہے اور نہ سماج انسان کو ان کے بغیر تصور کرسکتا ہے۔ یہ ہمیشہ ہوتی ہیں۔ جدید ذہن، جدیدیت پر نقد سے فوری متوحش ہوجاتا ہے اس لیے ایک “غیر جدید” مثال لیجیے۔ جدید سماج کی بنا سے پہلے، شادی ایک ایسے ٹیکنالوجی تھی جس کو حاصل کرنے پر انسان کی زندگی کی خوشی، سکون، مسرت اور نجانے کیا کچھ کا انحصار تھا۔ ہر بچہ خواہ مرد ہو یا عورت اس ٹیکنالوجی کے حصول کے نتیجے میں پیدا ہوتا اور اسی ٹیکنالوجی کے اعلی حصول کے لیے تیار کیا جاتا۔ سو اس سماج میں ایک کامیاب زندگی کی مساوات یوں تھی۔
اچھی بیوی/شوہر = اچھا خاندان، اچھا گھر، اچھی نسل = اچھی زندگی
آپ اس سماج کے کسی بھی شخص سے پوچھ لیں یا کبھی ٹائم ٹریول کرکے اس سماج کا رخ کریں تو آپ یہ احساس شدت سے ہو گا وہاں کے لوگوں کا اس ٹیکنالوجی پر کس قدر انحصار ہے۔ یعنی لوگ (سماج) کسی ایسے شخص کا تصور نہیں کرسکیں گے جو شادی کی عمر آنے کے بعد تک کنوارہ ہو۔ یعنی اس نے وہ ٹیکنالوجی حاصل نہ کی ہو۔ اسی طرح کسی بھی فرد سے جب آپ پوچھیں گے تو اس کی زندگی میں اس ٹیکنالوجی کے بہترین ورژن کا حصول خواب ہوگا اور یہی اس کے بہت سے دکھ اور درد کا نہ صرف مداوا ہوگا بلکہ وجہ بھی یہی ہوگی۔ اس میں آپ رومانویت اور محبت کو بھی شامل کرلیں، رومانویت اور محبت بھی وہاں اسی ٹیکنالوجی کے اگلے ورژن ہیں یعنی
شادی < پسند کی شادی < محبت کی شادی یعنی اس ٹیکنالوجی کا سب سے اعلی ورژن محبت کی شادی کہلائے گا۔ ہم الیگزینڈر ڈیوگن کے الفاظ مستعار لیتے ہیں اور ان ٹیکنالوجیز کو Creature comforts کہتے ہیں لیکن اس کو مزید بڑھاتے ہیں یہ ٹیکنالوجیز کسی سماج میں محض سکون پانے اور لطف حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں ہوتے بلکہ بہت سی معنویت اسی سے پیدا ہوتی ہے، ویلیوز اس سے پیدا ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہاں تک کہ یہ شناخت تک بنانے میں کردار ادا کرتی ہیں۔ سردست یہ موضوع نہیں ہے۔ اب جدید سماج کی جانب رخ کرتے ہیں۔ ایک ایسے صحت مند، خوبصورت، خوش باش نوجوان کا تصور کیجیے، جو روز اٹھتا ہے، ہنستا کھیلتا ہے، اس کے دوست ہیں سب کچھ ہے بس کچھ نہیں ہے تو اس کا فیس بک، وٹس ایپ اکاونٹ نہیں ہے، انسٹاگرام پر وہ تصویریں نہیں ڈالتا، آپ کو اگر اسے فوری فون کرکے اطلاع دینی ہے تو وہ ممکن نہیں کیونکہ اس کا فون ہر وقت سائلنٹ پر ہوتا یا خدانخواستہ اس کے پاس فون ہے ہی نہیں، وہ ایکس پر لکھتا نہیں ہے، آئی فون آئے تو اسٹور کے باہر کھڑا نہیں ہے۔ ہمیں فوری عجیب سا لگتا ہے کہ آخر یہ کیسا نوجوان ہے؟ ہم فوری "کیوں" کا سوال کرنا چاہتے ہیں آخر کیوں؟ یہ کیوں نہایت involuntary ہوتا ہے یعنی یہ ہمارے لاشعور سے فورا نکلتا ہے کہ آخر کیوں بھئی؟ کیوں نہیں کر رہے؟ بالکل ایسے جیسے ہم سے پہلے کے سماج کو غیر شادی شدہ، مالدار نوجوان سے متعلق دھچکا لگتا تھا کہ یہ کیسی زندگی ہے یا یہ کیسا نوجوان ہے جس کے پاس سب کچھ اور وہ گھر نہیں بسا رہا۔ سو جدید سماج بہ طور سماج اور فرد بہ طور فرد، ان عدسوں سے زندگی کو visualise کرتا ہے۔ اس کو یوں بنانے میں بہت سے چیزوں کا ہاتھ ہوتا ہے مثلا علم و طاقت کا تال میل، سرمایہ دار وغیرہ وغیرہ۔ کسی شادی پر آپ کے گھر کی بڑی بوڑھی نے اگر آپ سے "کیوں" کا یہ سوال زور دے کر پوچھا ہے کہ "کیوں شادی" نہیں کی تو اصل میں وہ جس ورلڈ ویو کا شخص ہے اس ورلڈ ویو میں آپ کہیں فٹ نہیں ہو رہے بالکل ایسے جیسے وہ نوجوان ہمارے ورلڈ ویو میں فٹ نہیں ہو رہا۔ یہ تمام ٹیکنالوجیز نہایت مفید ہوتی ہیں اور سماج میں انسان کو ان سے فائدہ پہنچتا ہے لیکن یہ ٹیکنالوجیز oppressive بھی بن جاتی ہیں جن سے پہلی ضرب انسان کی آزادی پر پڑتی ہے اور دوسری ضرب انسان کی نفسیات پر پڑتی ہے۔ یہاں سے اس گفتگو کو بہت سے رخ پر موڑا جاسکتا ہے طوالت کے خوف سے اسے چھوٹا کرتے ہوئے صرف یہاں پر بات ختم کرتے ہیں کہ جس وقت انسان، ان ٹیکنالوجیز کے ورلڈ ویو کے ساتھ aligned چل رہا ہوتا ہے اس وقت یہ سوچنا سمجھنا نہایت مشکل ہوتا ہے کہ انسان کو اس سے کیا نقصانات ہو رہے ہیں یا ہوسکتے ہیں۔ اس لیے اس وقت میں یہ ضروری ہوتا ہے کہ اپنی تشکیک کی صلاحیت کو ان چیزوں پر بھی صرف کیا جائے جنہیں آپ بغیر تردد قبول کر رہے ہیں بالکل ایسے جیسے ہم قدیم سماج اور اس کی روایات کے معاملے میں کرتے ہیں۔ اس سب کا بہت گہرا تعلق اس سے ہے کہ سماج کس طرح سے dichotomies بناتا ہے۔ صحت مند و غیر صحت مند، کامیاب و ناکام وغیرہ وغیرہ اور اس سب کا تعلق انسان کے خوش رہنے سے بھی ہے۔ یہ ٹیکنالوجیز نہایت مفید ہیں لیکن ان کو ہمیشہ مفید سمجھنا (جس طرح شادی کی ٹیکنالوجی کو سمجھا جاتا تھا/ہے) اور ان کے استعمال کو شک کی نگاہ سے دیکھے بغیر ان کا استعمال کئے جانا نقصان دہ ہے اس کا حل اس بات میں نہیں ہے انسان جنگلوں کو نکل جائے بلکہ بہت اہم تبدیلیوں کی ضرورت ہیں جو انسان کے ورلڈ ویو کو بہتر کرکے ان آلات کے ساتھ اس کے تعلق کو بہتر بنا سکے جہاں ان پر ہمارا انحصار ہماری آزادی سلب کرتے ہوئے ہماری نفسیاتی حالت کو بگاڑنا نہ شروع کردے۔