عدالتی فیصلے نہیں آئین و قانون کے پابند ہیں: چیف جسٹس
Reading Time: 2 minutesالیکشن ٹریبونلز کی تبدیلی کے کیس میں الیکشن کمیشن کی اپیل کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ وہ کسی عدالتی فیصلے کے نہیں آئین اور قانون کے پابند ہیں۔
پی ٹی آئی کے سلمان اکرم راجہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ آپ کی اس بات کے دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور میری رائے میں سپریم کورٹ پر بھی تمام عدالتی فیصلوں اور اُن میں کی گئی آئینی تشریح لاگو ہوتی ہے جب تک کہ ایسے فیصلوں کو سپریم کورٹ ایک بڑے بینچ میں باقاعدہ سماعت کے بعد بہتر تشریح کے ساتھ تبدیل نہ کر دے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کسی زمانے میں رپورٹنگ درست ہوتی تھی اور آج کل کچھ لوگ یو ٹیوب پر ڈالر کمانے کے لیے رپورٹنگ کرتے ہیں-
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کو پڑھنے کا کشٹ کوئی نہیں اُٹھاتا، آئین میں واضح ہے کہ ٹربیونل تشکیل دینا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا اختیار چیف جسٹس کی ساتھ مشاورت سے مشروط ہے، الیکشن کمیشن کو اختیار نہیں کہ چیف جسٹس کے بھیجے ہوئے نام مسترد کر دے۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن چیف جسٹس سے ججز کا پینل بھی نہیں مانگ سکتا، تاثر دیا گیا کہ مقدمہ میرے وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وکیل حامد خان کے بیرون ملک ہونے کی درخواست آئی تھی اس وجہ سے کیس تاخیر کا شکار ہوا۔
چیف جسٹس نے مقدمے کے فریق سلمان اکرم راجہ سے کہا کہ انہوں نے غلط خبروں پر وضاحت کیوں نہیں کی؟
وکیل نے بتایا ملک میں نہیں تھے اس وجہ سے کسی خبر کا علم نہیں۔
چیف جسٹس پہلے کورٹ رپورٹنگ حقائق پر ہوتی تھی اب یوٹیوب کے ڈالرز کے لیے ہوتی ہے،
سلمان اکرم راجہ صاحب مسئلہ حل ہوچکا اب کیا چاہتے ہیں؟
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا آپ اپنی مرضی کے ججز سے فیصلے کروانا چاہتے ہیں؟
درخواست گزار مرضی کا جج چاہے گا تو نظام انصاف ختم سمجھیں۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ مرضی کے جج سے فیصلے کا کبھی نہیں کہا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ اداروں کے درمیان تصادم چاہتے ہیں؟
سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ اداروں کے درمیان پہلے ہی تنازع ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ 8 میں سے چار ٹریبونلز فعال ہوگئے ہیں، اب چار ٹریبونلز الیکشن کمیشن نوٹیفائی کرے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا رضامندی سے متعلق پیراگراف کیا حذف کیا جاسکتا ہے؟ جھگڑا اختیارات سے تجاوز کرنے پر آتا ہے۔ کمیشن سے توقع کرتے ہیں کہ وہ مناسب طریقہ کار اپنائے۔