پاکستان

پیکا قانون کا کوئی عملی فائدہ ہوتا نظر نہیں آیا: اسلام آباد ہائیکورٹ

جون 3, 2025

پیکا قانون کا کوئی عملی فائدہ ہوتا نظر نہیں آیا: اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے کہا ہے کہ انسداد الیکٹرانک جرائم کے قانون (پیکا) کا کبھی عملی طور پر کوئی ایک فائدہ نظر نہیں آیا۔

توہین مذہب کے ایک جیسے مقدمات درج کیے جانے پر تحقیق کے لیے کمیشن کی تشکیل کی درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز اسحاق نے کہا کہ جب وہ وکالت کر رہے تھے تب بھی نہ دیکھا کہ اس قانون کے عملی نفاذ سے کوئی اثرپذیر نتیجہ نکلا ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسا کچھ نہیں دیکھا کہ پولیس اور تفتیشی ایجنسیاں ایف آئی اے پیکا کے بغیر وہ کام نہیں کر سکتے تھے جو اس قانون کے بننے کے بعد کیا۔

انہوں نے ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر لیگل سے سوال کیا کہ مجھے معلوم نہیں کون سی ایسی چیزیں ہیں جو بطور تفتیشی ایجنسی پیکا قانون کے بغیر آپ نہیں کر سکتے تھے۔

ایڈیشنل ڈائریکٹر لیگل نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی تفتیشی ایجنسی (ایف آئی اے) کو بنانے کا قانون 1974 میں لایا گیا جبکہ اس ایجنسی کے رولز 2002 کے ہیں، تو ظاہر ہے اب جدید ٹیکنالوجی آئی ہے۔

جسٹس اعجاز اسحاق نے کہا کہ اُن کو یہ جاننے میں دلچسپی ہے کہ وہ کون سے کام تھے جو ایف آئی اے بطور ایجنسی پیکا قانون بنائے جانے کے بغیر نہیں کر پا رہی تھی۔

ایڈیشنل ڈائریکٹر لیگل نے تسلیم کیا کہ بطور ایجنسی اپنے پہلے سے موجود فریم ورک کے اندر بھی سارے کام کیے جا سکتے تھے، پیکا قانون کے بغیر بھی سب کچھ کیا جا سکتا تھا۔

ایڈووکیٹ عثمان وڑائچ نے کہا کہ ایف آئی اے سے یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ پیکا قانون کے بعد بھی اگر پاکستان پینل کوڈ (تعزیرات پاکستان) کی دفعات کے تحت ہی مقدمات کا اندراج کرنا تھا تو وہ تو پہلے سے ہی موجود تھیں۔

توہین مذہب کے مبینہ ملزمان/مجرموں/ متاثرین اور اُن کے اہلخانہ کی جانب ایڈووکیٹ ہادی علی چھٹہ اور دیگر کے دلائل ابھی جاری ہیں۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے