خود مختار کشمیر قبول ہے، جنرل درانی
Reading Time: 3 minutesسابق جرنیل اسد درانی کی کتاب میں جہاں بہت سے انکشافات کئے گئے ہیں وہاں را کے سابق سربراہ اے ایس دولت کی جانب سے بھی کئی دلچسپ حقائق سامنے ۤۤۤآئے ہیں ۔
کشمیر کے معاملے سابق جاسوس جرنیلوں کی کتاب میں دو سے تین ابواب شامل کئے گئے ہیں۔کشمیر کے متعلق کتاب کے تیسرے باب میں امان اللہ گلگتی کی آزادی کے خواب کا ذکر کیا گیا ہے۔صحافی ادیتیا سنہا کے سوال کہ کیا آپ کبھی صلاح الدین یا امان اللہ سے ملے تھے،جرنیل اسد درانی جواب دیتے ہیں کہ امان اللہ،جی ہاں ان سے ملاقات ہوئی تھی جب یہ تحریک اُٹھی۔امان اللہ ابتدائی مزاحمتی کردارتھے اس کا آزادی،تیسرے آپشن کا ائیڈیا برا نہیں تھا لیکن یہ بہت سے پاکستانیوں خاص طور پر اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کر گیا۔ امان اللہ کو عوامی حمایت حاصل تھی اور صرف اس وجہ سے کچھ لوگ اُسے پسند نہیں کرتے اور وہ کمزور تھا، یہ کہنا انصاف نہیں ہو گا۔امان اللہ کے کچھ کام ایسے ہیں کہ جن کا معترف ہونا پڑے گا جیسے کہ 27 اکتوبر کے لائن آف کنٹرول کی طرف اُس کا مارچ ۔۔۔ وہ ہمیشہ کی طرح بہت منظم انسان تھے ۔
اسد درانی کے مطابق امان اللہ کے پاس ناراضگی کی کئی وجوہات تھیں،ہمارا سردار قیوم کی طرف جھکاو کہ کشمیر پاکستان میں شامل ہو،اسی طرح جماعت اسلامی کا یہ نعرہ کہ کشمیر بنے گا پاکستان، انہوں نے ہمارئ سیاسی حمایت حاصل کی۔ہم نے کوشش کی اور اسے کہا کہ ہاں بھائی امان اللہ تمھاری بات درست ہے لیکن ہمارے دوسرے دوست بھی صحیح کہتے ہیں۔بعد میں مجھے احساس ہوا کہ یہ ہماری غلطی تھی لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی اور میں ذاتی طور پر کچھ نہیں کر سکتا تھا۔
سنہا نے پوچھا کہ کیا امان اللہ آئی ایس آئی کا فیورٹ نہیں تھا، جرنیل درانی نے جواب دیا "بالکل نہیں”،وہ آئی ایس آئی اور پاکستان کا پسندیدہ نہیں تھا۔
فیصلہ کرنا ہمارا کام نہیں ،معروضی طور پر ہمیں یہ پوچھنا چاہیے تھا کہ کشمیر ۤۤآزاد ہونے سے کس ملک کو ذیادہ نقصان ہو گا۔میرے ذاتی اندازے کے مطابق اس کا زیادہ نقصان بھارت کو ہوتا۔اگر ساٹھ ستر سال بعد بھارت کے ساتھ رہنے کے باوجود بھی وہ آزادی چاہتے ہیں تو ان احساسات کو بھی وزن دیا جاتا ہے۔اگر بطور آزاد ریاست وہ انڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے جس کا مجھے یقین ہے۔وہ بہت سی وجوہات سے چین سے بھی رابطہ میں رہتے لیکن کشمیر کا دل پاکستان کے ساتھ ہوتا،اس لئے اگر کوئی آزادی کی بات کرتا ہے تو ہمارا کوئی کام نہین اس کے راستے میں آئیں۔اس لئے امان اللہ کے ساتھ ہم نے درست سلوک نہیں کیا۔
اس پر اے ایس دولت نے کہا کہ خودمختار کشمیر پاکستان کے لئے کبھی قابل قبول آپشن نہیں رہا۔ اسد درانی نے جواب دیا کہ بھارت نے کشمیر کو خصوصی حیثیت دی۔ ہم مان لیتے ہیں کہ اس ریاست کا اپنا صدر اور وزیراعظم ہے۔ٹھیک ہے کرنسی اور انتظامی ڈھانچہ ایک ہے۔ لیکن اگر وہ آزاد رہنا چاہتے ہیں تو کیا حرج ہے۔ ہم ہمیشہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ کشمیریوں کا دل ہمارے ساتھ ہے تو ایک خود مختار کشمیر کا جھکاو ہماری طرف ہی ہو گا۔ مجھے خود مختار کشمیر سے کوئی مسئلہ نہیں۔ اے ایس دولت نے جواب دیا کہ لیکن اسٹیبلشمنٹ کو مسئلہ ہے۔
اسد درانی نے کہا کہ اسٹبلشمنٹ اس پر محتاط ہے۔ کچھ احمقانہ طور پر کہتے ہیں کہ خود مختار کشمیر تباہ کن ہوگا۔ دولت نے کہا اب پہنچے ہو اپ بات پر ۔۔۔۔۔
صحافی سہنا نے سوال کیا کہ اس تباہ کن کی کامنطق ہے؟ درانی بولے کہ وسوسے ۔
دولت نے لقمہ دیا کہ وسوسے اور آیا کہ کشمیری قابل اعتماد ہے کہ نہیں۔ کیا اُس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے؟
درانی نے کہا کہ کچھ لوگ کشمیریوں کو قابل بھروسہ نہیں سمجھتے لیکن یہ مخصوص پاکستانی، برصغیر یا عالمی خاصہ ہے کہ اپنے سوا کسی اور کو قابل بھروسہ قرار نہیں دیا جاتا۔ پاکستان میں پنجابی اسی طرح کے احساسات پشتونوں، بلوچوں اور اب مہاجروں کے بارے میں رکھتے ہیں۔ پنجابی کہتے ہیں کہ ہم سب سے بڑی آبادی ہیں لیکن ہم ہی سب سے ذیادہ مغلوں اور برطانوی راج کے لئے قابل بھروسہ رہے تھے۔ پنجابی پریشان ہو جاتے ہیں کہ خودمختار کشمیر کے بعد منگلا ڈیم کا کیا بنے گا۔
مترجم: عثمان غنی پیرا