چیف جسٹس اور سعد رفیق آمنے سامنے
Reading Time: < 1 minuteسپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں ریلوے کے سابق وزیر سعد رفیق کو قومی احتساب بیورو کی تحویل میں پیش کیا گیا ۔ سعد رفیق نے آڈیٹر کی رپورٹ پر اپنا جواب عدالت میں جمع کرایا ۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ ریلوے خسارہ کے آڈٹ پیرا گراف میں کسی کرپشن یا بے ضابطگی کی نشاندہی نہیں کی گئی ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ خسارہ تو ہوا ہے نا ۔ خواجہ سعد رفیق کے وکیل نے جواب دیا کہ یہ نقصان نہیں وہ خسارہ ہے جو 65 برس سے چلا آ رہا ہے ۔ عدالت نے سعد رفیق کے جواب پر آڈیٹر جنرل کو اپنا مؤقف تحریری طور پر جمع کرانے کی یدایت کی ۔
سعد رفیق نے عدالت میں بولنے کی اجازت چاہی اور کہا کہ میرے وزیر بننے سے پہلے 58 ملین روپے پنشن کی مد میں سابق ملازمین کو وفاقی حکومت دیتی تھی، میرے دور میں ریلوے نے اپنے فنڈز سے 21 ملین پنشن کی مد میں دیئے، میں آپ سے شاباش لینا چاہتا ہوں، اب تو شاباش دیدیں ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ شاباش تب ملے گی جب رپورٹ آ جائے گی ۔
عدالت سے نکلتے ہوئے سعد رفیق نے کہا کہ مجھے افسوس ہے شیخ رشید عدالت سے ریلوے انجنوں کے بارے میں غلط بیانی کر رہے ہیں، امریکی انجن 22 کروڑ کا نہیں آتا اور نہ ہی ہم نے 44 کروڑ کا خریدا ۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے ساتھ نیب کا رویہ ٹھیک ہے، نواز شریف کو جو سزا دی گئی اس سے بڑا ظلم کوئی نہیں، احتساب کے نام پر ن لیگ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔