کالم

مرے خدا میری بینائی چھین لے مجھ سے

دسمبر 16, 2019 2 min

مرے خدا میری بینائی چھین لے مجھ سے

Reading Time: 2 minutes

رستم اعجاز ستی ۔ صحافی

16 دسمبر 1971 کی شکست اور ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالنے کا واقعہ ہماری المناک تاریخ اور شکستوں کا بدترین واقعہ ہے۔ یہ کوئی معمولی سانحہ نہیں تھا۔ یہ پاکستان کے ٹوٹنے کا دن ہے۔ہمارے جرنیل ٹائیگر نیازی نے بھارتی جرنیل جگجیت سنگھ اروڑہ کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ ادھر ہمارا ٹائیگر شکست نامے پر دستخط کر رہا تھا اور ادھر 14 دسمبر کو ڈکٹیٹر صدر یحیی خان قوم سے خطاب کرنے اور دروغ گوئی میں مصروف تھا کہ جلد ہی ہم فتح یاب ہونے والے ہیں۔

اس کڑے وقت میں ہمارے حکمران امریکہ کی طرف دیکھ رہے تھے لیکن امریکہ نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔امریکا کا ساتواں بحری بیٹرا ہمارے حکمرانوں کی مدد کو نہ آیا یہاں تک کہ ڈھاکہ ڈوب گیا۔نہایت تلخ تجربات کے باوجود بعد میں بھی ہمارے پالیسی سازوں کے دل میں امریکہ سے محبت کی میٹھی میٹھی آگ سلگتی رہی۔ وہ فوجی تھے یا سول، سب امریکی ترانے گاتے رہے۔ ہم نے کوئی سبق نہ سیکھا۔

بات ہو رہی ہے سولہ دسمبر کی، اتنے بڑے سانحے کی تحقیقات ہوئیں لیکن حمود الرحمن کمیشن رپورٹ تاحال منظر عام پر نہ آ سکی۔ شنید ہے کہ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں متعدد فوجی جرنیلوں اور افسروں کا نام لے کر انکے کارناموں کا ذکر کیا گیا اور انکے خلاف مقدمات چلانے کی سفارش کی گئی تھی۔ تاکہ قوم مطمئن ہو سکے اور مستقبل میں ایسے شرمناک کردار اور واقعات کا سدباب کیا جا سکے لیکن کسی کے خلاف کارروائی ہوئی نہ سزا ملی۔

ہمیں تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیئے تاکہ ذلت و تباہی کا شکار نہ ہوں لیکن ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ عوامی جذبات کو اور بگڑے معاملات کو غلطیوں کی درستی سے سنھبالنے کے بجائے ڈنڈے کے زور پر ختم کرنے کی کوشش کا نتیجہ سولہ دسمبر کی صورت ہی میں نکلتا ہے۔

جب خود کو عقل کل سمجھنے والوں نے مشرقی پاکستان میں فوجی آ پریشن شروع کیا تو جالب صاحب نے لکھا
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

اور پھر جب ہمارے ٹائیگر نے ہتھیار ڈالے تو ضمیر صاحب نے لکھا
نیازی نے روڑہ کو باچشم تر
کیا پیش جب اپنا ریوالور
تو اک پل میں صدیوں کا خوں ہو گیا
سر پاک پرچم نگوں ہو گیا

احمد فراز صاحب نے ڈھاکہ میں فوجی میوزیم دیکھ کر ان احساسات کا اظہار کیا تھا


کبھی یہ شہر میرا تھا زمین میری تھی
مرے ہی لوگ تھے میرے ہی دست و بازو تھے
میں جس دیار میں بے یارو بے رفیق پھروں
یہاں کے سارے صنم میرے آشنا رو تھے
کسے خبر تھی کہ عمروں کی عاشقی کا مآل
دل شکستہ و چشم پر آب جیسا تھا
کسے خبر تھی اس دجلہ محبت میں
ہمارا ساتھ بھی موج و حباب جیسا تھا
خبر نہیں یہ رقابت تھی ناخداوں کی
کہ یہ سیاست درباں کی چال تھی کوئی
دو نیم ٹوٹ کر ایسی ہوئی زمیں جیسے
مری اکائی بھی خواب و خیال تھی کوئی
یہ میوزیم تو ہے اس روز بد کا آئینہ
جو نفرتوں کی تہوں کا حساب رکھتا ہے
کہیں لگا ہوا انبار استخواں تو کہیں
لہو میں ڈوبا ہوا آفتاب رکھتا ہے
کہیں مرے سپہ سالار کی جھکی گردن
عدو کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا سماں
مرے خدا میری بینائی چھین لے مجھ سے
میں کیسے دیکھ رہا ہوں ہزیمت یاراں

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے