کالم

پاکستان بدل رہا ہے

دسمبر 17, 2019 4 min

پاکستان بدل رہا ہے

Reading Time: 4 minutes

سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ پڑھ لیا ہے۔ گو ہم سب کی توقعات اور اندیشے جنرل باجوہ کی ایکسٹنشن سے متعلق تھے اور اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے اب فیصلے پر اطمینان یا مایوسی کا اظہار ہو رہا ہے مگر فیصلہ پڑھ لینے کے بعد میرا خیال ہے اس معاملے کو صرف اسی حوالے سے دیکھنا درست نہیں ہوگا۔ سپریم کورٹ نے ہمارے آئین اور قانون میں پائے جانے والے خوفناک قانونی خلاء کی نشاندھی کی ہے۔ ملک کا سب سے طاقتور ادارہ اتنا طاقتور ہے کہ اب تک اس کے معاملات بغیر کسی لیگل کور کے چلائے جاتے رہے ہیں۔ فیصلے میں بہت تفصیل سے یہ واضح کیا گیا ہے کہ آرمی ریگولیشنز، پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت نہیں ہیں اس لئے ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ آرمی ایکٹ میں انہیں لیگل کور دینے کیلئے جو سیکشن 176 رکھا گیا ہے وہ ناکافی ہے اور اس کی زبان آئینی تقاضوں کو پورا نہیں کرتی۔

اب یہ معاملہ صرف جنرل باجوہ کی ذات تک محدود نہیں رہا۔ حکومت کو بہت حساس معاملات پر بہت باریک قانون سازی کرنا ہوگی۔ بھلے سادہ اکثریت سے قانون منظور کر لیا جائے، قانون پارلیمنٹ میں آنے کے بعد اس پر پارلیمان کے اندر اور باہر جو بحث چھڑے گی، وہ زیادہ اہم ہوگی۔ جیسا کہ فاضل منصفین نے بجا طور پر فیصلے میں بھی ذکر کیا ہے کہ معاملات پاکستانی عوام اور ان کے منتخب نمائندوں پر چھوڑ رہے ہیں۔ موجودہ سپریم کورٹ اور جناب چیف جسٹس کے متعلق میرے جو بھی ذاتی خیالات رہے ہیں ان کے ہوتے ہوئے بھی یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ سپریم کورٹ نے ممکنہ حد تک نہ صرف دلیری بلکہ ذمہ داری کا ثبوت بھی دیا ہے۔ فاضل جج صاحبان نے کچھ بہت اہم سوالات اٹھائے ہیں، ان کا بہترین قانونی دلائل کے ساتھ جواب دیا ہے- ایک لائحہ عمل تجویز کیا ہے مگر اس پر عملدرآمد کی کیا صورت بنے اور مجوزہ قانون سازی کے خدو خال کیا ہوں، یہ معاملہ کلی طور پر عوام کے نمایندوں پہ چھوڑ دیا ہے۔

اب یہ موجودہ سیاسی قیادت کے شعور کا امتحان ہے کہ وہ اس چیلنج سے کیسے نبردآزما ہوتے ہیں۔ سوال اب ایک متنازعہ چیف کی تین سال کیلئے دوبارہ تعیناتی کا نہیں رہا۔ معاملہ اب پاکستان کی آرمڈ فورسز کے لیے تشکیل دیے گئے قواعد و ضوابط کو لیگل فریم ورک دینے کا، ان میں مناسب تبدیلیاں کرنے کا اور انہیں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا ہے- آپ ذرا ان نکات پر غور فرمائیں۔

آرمی ایکٹ 1952 آئین کے آرٹیکل 243 کے مطابق فوج کی تشکیل اور تسلسل کے لئے درکار ڈھانچہ فراہم کرنے سے قاصر ہے، خصوصاً کمیشنڈ افسران کی بھرتی اور شرائط ملازمت کے متعلق، بشمول ایک جنرل کی مدت ملازمت اور اس میں توسیع کے بارے میں۔ جنرل کی شرائط ملازمت ہی چیف آف آرمی سٹاف پر بھی لاگو ہوں گی، سوائے تنخواہ اور دیگر مراعات کے جن کا فیصلہ آرٹیکل 243 کی کلاز 4 کے مطابق ہونا ہے-

آئین میں کسی جنرل کی مدت ملازمت میں توسیع کا نہ تو کوئی قانون ہے نہ ہی ادارے میں ایسی کوئی تسلسل سے چلی آنے والی روایت پائی جاتی ہے۔

وزارت دفاع، وزیراعظم، صدر مملکت اور کابینہ کی جنرل قمر باجوہ کی دوبارہ تعیناتی، توسیع یا پھر سے ملازمت میں لئے جانے کے متعلق تیار کردہ سمریاں متعلقہ قوانین کی عدم موجودگی کے سبب بے معنی اور بے نتیجہ ہیں۔

ریگولیشن نمبر 255 اور تمام آرمی ریگولیشنز جو ریٹائرمنٹ سے متعلق ہیں، آرمی ایکٹ سے متصادم ہیں۔ آرمی ایکٹ ریٹائرمنٹ کے معاملات کو رولز کے تحت حل کرنے کا کہتا ہے نہ کہ ریگولیشنز کے مطابق۔

پاکستان آرمی ایکٹ کا سیکشن 176 اور اس کے مطابق تیار کی گئی ریگولیشنز، مقننہ کے اپنے قانون سازی کے حق کو بلاضرورت انتظامیہ کو تفویض کرنے کی ایک مثال ہے۔ کیونکہ اس میں ضروری راہنما اصولوں کا تعین نہیں کیا گیا۔ (اس معاملے پر سپریم کورٹ نے 1965 میں جب یہ سیکشن پارلیمنٹ میں پیش ہوا، اس وقت کی پارلیمانی کاروائی کو فیصلے میں جگہ دی ہے اور بہت تفصیل سے بتایا ہے کہ راہنما اصولوں کا تعین کئے اور انہیں ایکٹ میں باضابطہ طور پر شامل کئے بغیر، پارلیمنٹ اپنا قانون سازی کا حق انتظامیہ کے سپرد نہیں کر سکتی تھی)

ان نکات سے واضح ہے کہ سادہ اکثریت سے کی جانے والی قانون سازی بھی اتنی سادہ اور آسان نہیں ہوگی۔

حکومت کی قانون سازی کی صلاحیتیں اس معاملے پر پہلے ہی بری طرح آشکار ہو چکی ہیں۔ اب وزارت قانون خود سے کچھ کر لینے میں کامیاب ہوتی ہے یا ایک بار پھر جیگ برانچ کی خدمات حاصل کی جائیں گی؟

اپوزیشن اب اس معاملے پر خاموش رہنا یا قانون سازی کی بحث سے گریز کرنا افورڈ نہیں کر سکتی، یہ مجرمانہ خاموشی ہوگی جس کے نتائج پوری قوم کو بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔ اتنے اہم اور حساس معاملے پر اتفاق رائے نہ پیدا ہو سکنا بڑی بدقسمتی ہو گی۔

حکومت جو بھی ترامیم اور قوانین پارلیمنٹ میں لے کر آتی ہے، ان پر یقینی طور پر پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھرپور بحث ہوگی۔ یہ عمل ایک ادارے کے مقدس گائے ہونے کے تاثر کو زائل کرنے میں مدد دے گا۔

اگر پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون پر سول سوسائٹی کو اطمینان نہ ہوا تو یہ دوبارہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکے گا۔

مختصر یہ کہ یہ معاملہ دور تک جاتا دکھائی دیتا ہے- جناب چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان کو ایکسٹنشن کا نوٹس لینے پر دلیری کے فل مارکس دیے تھے، تفصیلی فیصلہ پڑھ کر انہیں سمجھداری کے فل مارکس دینا بھی بنتے ہیں۔

پاکستان قطرہ قطرہ، ذرا ذرا ہی سہی مگر بدل رہا ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے