مریم نواز کے وکیل مشکلات میں
Reading Time: 7 minutesلندن فلیٹوں کی خریداری اور ملکیت کی کہانی پیچیدہ تھی اور ہے۔ عدالت میں سب کو شریف بچوں کے وکیلوں کا انتظار تھا۔ ابھی تو صرف مریم نواز کے وکیل شاہدحامد سامنے آئے ہیں اور حسن وحسین کے وکیل کی باری رہتی ہے مگر شاہد حامد نے آج جتنا مشکل دن گزارا ہے عدالت میں موجود ہر شخص اس کا گواہ ہے۔
پانچ رکنی عدالتی بنچ کے سامنے مریم نواز کے وکیل شاہد حامدنے دلائل کا آغاز کیا توجج اسی موقع کے منتظر تھے۔ جسٹس گلزار نے پوچھا میاں شریف کی وفات کے بعد وراثت کی تقسیم کیسے کی گئی؟ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا اگر ممکن ہوتو عدالت کو اس کی تفصیل سے آگاہ کیاجائے۔وکیل نے کہا وزیراعظم نے اپنے کاغذات نامزدگی میں خود کو والدہ کے گھر رہائش پذیر ظاہر کیا اور یہی حقیقت ہے، جائیداد کا اس طرح بٹوارہ نہیں ہوا۔
دوسرا مو ضوع کیپٹن صفدر کے ٹیکس کا ہے، جسٹس عظمت نے پوچھا کیپٹن صفدر نے 2011میں ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرایا، اس کے نتائج کیاہونگے؟۔ وکیل نے کہا پہلے وہ سرکاری ملازم تھے تنخواہ سے ٹیکس کٹتا تھا، 2011میں ان کے پاس ٹیکس نمبر نہیں تھا، اگر ٹیکس حکام نوٹس دیں تو پھر جرمانہ اداکرنا ہوتاہے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا اس کے موجودہ مقدمے میں کیا اثرات ہوسکتے ہیں؟۔ وکیل نے کہا اس پر نااہلی نہیں ہوسکتی۔ جسٹس کھوسہ نے کہا ٹیکس حکام نے نوٹس دے کر کارروائی نہیں کی مگر درخواست گزار کا الزام ہے کہ ٹیکس ریٹرن جمع نہ کرانے پر کیپٹن صفدر دیانتدار نہیں رہے۔
اس کے بعد پانچ میں سے دو ججوں میں عوامی مفاد کے مقدمے سننے پر جملے باز ی ہوئی اور جسٹس اعجاز افضل اور جسٹس آصف کھوسہ میں اختلاف کھل کر سامنے آیا۔جسٹس اعجازافضل نے پوچھاجب ٹیکس ریٹرن جمع نہ کرانے کے الزام میں کیپٹن صفدر پر الیکشن کمیشن میں بھی ریفرنس ہے تو کیاسپریم کورٹ عوامی مفاد کے مقدمے میں اس کو سن سکتی ہے؟۔ ایک ہی الزام میں دو مختلف جگہوں پر متوازی کیس کیسے چل سکتے ہیں؟وکیل نے کہا اسی طرح کے ریفرنس دیگرارکان کے خلاف بھی ہیں پھر عدالت کو وہ بھی الیکشن کمیشن سے لے کر یہاں سننا ہونگے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا سوال یہی ہے کہ دیگر ادارے بھی ریاست کے ہیں اور آئین کے تحت بنے ہیں،جب ایک بااختیار متعلقہ ادارہ موجود ہے تو ہم ا س کاکام کیوں کریں، اس طرح کل کو سول عدالت کے ضمانت دینے کے معاملے پر بھی اگر عوامی مفاد کے تحت براہ راست سپریم کورٹ سے ضمانت مانگی جائے اور ہم نے آرٹیکل 184تین میں سننا شروع کردیا تونہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہوجائے گا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے پوچھا کیا عوامی مفاد کی درخواست صرف اس بنیاد پر خارج کی جاسکتی ہے کہ ایسا ہی مقدمہ دوسری جگہ بھی زیرسماعت ہے؟۔ کل کو سپریم کورٹ میں 184تین کے مقدمے سے بچنے کیلئے لوگ دوسری جگہ بھی درخواست ڈال دیاکریں گے۔ اس دوران اختلاف والے دونوں ججوں نے آپس میں کھسر پھسر کی ، دوتین منٹ تک ایک دوسرے کو قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے ، پھر وکیل کو مخاطب کیا اور وہی بحث آگے بڑھنے لگی۔ جسٹس عظمت معاملے میں کودے اور بولے، کیا کیپٹن صفدر کے خلاف اس کیس کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض ہے؟۔ وکیل نے کہا اعتراض نہیں، مگر عدالت کے سامنے قانونی سوال ہیں ان کو بھی دیکھے۔
پھر کسی رکن اسمبلی کے خلاف نااہلی کی کارروائی کیلئے مروجہ طریقہ کار کی پرانی باتیں شروع ہوئیں کہ کیا اسپیکر کے پاس ریفرنس گیا؟ وہاں سے مسترد ہونے پر الیکشن کمیشن گیا یا ہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا؟۔ یہ سوال بھی اٹھا کہ اگر ایک شخص کے دائر ریفرنس کو اسپیکر نے مسترد کردیا تو کیا اس شخص کے علاوہ بھی کوئی دوسرا ہائیکورٹ یا الیکشن کمیشن میں اپیل ریفرنس دائر کرسکتاہے؟ جسٹس آصف کھوسہ نے یہ سوال بھی پوچھا کیا الیکشن کمیشن نے ریفرنس لیتے وقت یہ دیکھا کہ قابل سماعت ہے یا نہیں؟۔ وکیل شاہد حامد نے کہا یہ معلوم نہیں، مگر یہ لوگ ہرطرف درخواست ڈال دیتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں داﺅ لگ جائے گا۔ ہائیکورٹ بھی گئے ہیں، الیکشن کمیشن سے بھی رجوع کیا ہے اور سپریم کورٹ بھی عوامی مفاد میں آئے ہیں۔
وکیل شاہد حامد نے کہا مریم نواز عام شہری ہے عدالت عوامی مفاد کے تحت اس کے خلاف مقدمہ کیسے سن سکتی ہے؟۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہا عام شہری کے معاملات والد سے منسلک ہیں جو وزیراعظم ہیں۔ مشکلات میں گھرے وکیل نے کہا مریم اپنے والد کے زیرکفالت نہیں، اس صورت میں اگر ان کی بیرون ملک جائیداد بھی ہو تو کیا ہوا؟قانون کے مطابق عام شہری کے خلاف ایسے معاملے میں کارروائی نہیں ہوسکتی۔ جسٹس عظمت نے ہنستے ہوئے میزائل داغا کہ کیا آپ مان رہے ہیں کہ بیرون ملک جائیداد مریم کی ہے۔ وکیل بولے نہیں، میں یہ نہیں کہہ رہا۔ جب حسین کہتا ہے کہ لندن فلیٹس میرے ہیں تو مریم پر الزام کیوں؟۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا اگر جائیداد مریم کی ہے اور وہ وزیراعظم کے زیرکفالت ہے تب ہی وزیراعظم کیلئے ظاہر کرنا ضروری تھا۔
جسٹس اعجازافضل نے کہا الزام یہ ہے کہ اتنے مشکل حالات میں اتنی مہنگی جائیداد کیسے بنائی گئی؟۔ وکیل نے اس کی وضاحت کرنے کی کوشش کی تو حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجا نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے سخت ردعمل ظاہر کیا اور وکیل شاہد حامد کی معاون وکیل (جو ان کی بیٹی بھی ہیں) کے ذریعے فوری طور پر ان کی ٹانگ پر ہاتھ رکھ کر روکا۔شاہد حامد نے بڑی مشکل سے عدالت کو بتایا کہ اس معاملے پر آگے نہیں جاﺅں گا حسین نواز کے وکیل کاعلاقہ ہے۔ وکیل نے مریم کے تحریری جواب میں سے سیاسی دشمنی کے نتیجے میں مقدمے میں شامل کرنے کا ذکر کیا تو جسٹس آصف کھوسہ نے کہا یہ لفظ مجھے پریشان کررہا ہے، اس لفظ پر رک گیاہوں، یہ سیاسی اختلاف کیوں نہیں ہوسکتا؟۔وکیل شاہد حامد نے کہا دعا ہے کہ کسی دن معاملہ سیاسی اختلاف کی سطح تک نیچے آجائے، جس طرح ٹی وی پر معاملے کو اچھالا جاتاہے حیرت ہوتی ہے، بی بی سی اور جرمن اخبار کی رپورٹ کو لہرا کر ثبوت بتایا جاتاہے۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا وہ تمام دستاویزات پہلے ہی عدالت کے ریکارڈ میں ہیں۔
جسٹس آصف کھوسہ نے شریف بچوں کے جواب میں غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا مشترکہ جواب میں لکھاہے حسین نواز کے پاس قومی ٹیکس نمبر نہیں۔ اس پر وکیل سلمان اکرم اپنی نشست سے کھڑے ہوئے اور کہا اس کا میں جواب دوں گا، یہ لکھنے کی غلطی ہے ، ریکارڈ سے ثابت کروں گا ٹیکس نمبر ہے ۔ایک اور غلطی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے جسٹس آصف کھوسہ نے کہا قطر کا خط پانچ نومبر کاہے مگر سات نومبر کے مشترکہ جواب میں حسین اور مریم نے قطر کے کاروبار کا ذکر نہیں کیا۔ اس پر عدالت میں زبردست قہقہے گونجے ، عمران خان اور جہانگیر ترین خوشی سے سرشار نظر آئے۔ پہلی بار عدالت آنے والی تحریک انصاف کی ایک ادھیڑ عمر خاتون نے تالیاں بھی بجادیں جس کو ساتھ بیٹھی خاتون نے بڑی مشکل سے روکا۔ا س کے بعد وکیل نے مریم نواز کے نئے بیان کو پڑھنا شروع کیا اور عدالت کو بتایا کہ اس پیپر بک پر بھی نمبر لگ گیاہے، جسٹس آصف کھوسہ نے کہا اس پر 420نمبر لگا ہے، ایک بار پھر عدالت قہقہوں سے گونج اٹھی۔
مریم کے وکیل نے جمع کرائی گئی ایک دستاویز کا حوالہ دیا، ججوں کے سامنے درجنوں پیپرز بکس میں سے اسٹاف نے ڈھونڈنا شروع کیا۔ وکیل نے اس میں سے پڑھنا بھی شروع کردیا مگر جسٹس عظمت سعید کو وہ کاپی نہ ملی۔ جھنجھلا کر بولے، اتنی دستاویزات جمع کرائی ہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا، ہر بات کیلئے الگ پیپربک جمع کرائی ہے، وکیل صاحب، پہلے دن سے کہہ رہے ہیں ہمیں دستاویزات/ پیپرزبکس میں دفن نہ کریں، ساری دستاویزات و جواب ایک ہی پیپربک میں لگا کر جمع کرادیتے۔
وکیل شاہد حامد نے عدالت کو بتایاکہ برطانوی اخبار میں شائع ای میل میں مریم کو فلیٹوں کا مالک ظاہر کرنے والی دستاویزات جعلی ہیں، ان پر مریم کے دستخط بھی اصلی نہیں۔وکیل نے پانچوں جج صاحبان کو محدب عدسے فراہم کرکے کہا مریم کے دستخط کو بڑا کرکے دیکھا جائے تو جعل سازی کا پتہ چل جاتاہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا دوسری دستاویز کسی اخبار کی نہیں پانامہ پیپرز کی ہے، اب وہاں جاکر مریم کے دستخطوں والی دستاویز کی تصدیق کون کرے۔وکیل بولے جعلی دستخط پکڑنے کاآن لائن ویب سائٹ کے ذریعے بھی نظام ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے دیا گیا محدب عدسہ لہراتے ہوئے کہا اسے دیکھ کرہالی ووڈ کا جاسوسی کردار شرلاک ہومز یاد آرہاہے ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا یہ درخواست گزار کی ذمہ داری ہے کہ اصل اور تصدیق شدہ دستاویزات فراہم کرے۔جسٹس عظمت سعید نے کہا جب یہ دستاویز ہی 2012کی ہے تو مقدمے سے کیا تعلق؟۔مقدمے میں توملکیت 2005سے پہلے کی ثابت کرنا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا تحریری جواب میں مریم کو صرف نیسکول کا ٹرسٹی لکھا گیاہے۔ وکیل نے کہا غلطی ہوگئی وہ نیلسن کی بھی ٹرسٹی ہیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا ایسا لگتاہے کیس آگے بڑھنے کے ساتھ جواب درست کررہے ہیں۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہا ٹرسٹ ڈیڈ 2006کی ہے تو آج بھی جواب میں غلطی کیسےرہ گئی، معاملہ ٹرسٹ ڈیڈ کا نہیں دیانتداری کاہے، مریم کے کل چار جواب ہیں کیا دیگر میں اس غلطی کو درست کیا گیا ہے۔جسٹس کھوسہ مزید بولے ہم سچ جاننے کی کوشش میں ہیں، دستاویزات کے دستخط ایک معمہ ہیں، لگتاہے خاندان کے افراد ایک دوسرے کے دستخط کرتے رہے ہیں، دبئی مل معاہدے میں طارق شفیع کے دستخطوں میں بھی یہی معاملہ سامنے آیا تھا۔
اس کے بعد دلائل کا رخ ٹرسٹ ڈیڈ کی جانب ہوا۔ وکیل نے کہا مریم کے نام ٹرسٹ ڈیڈ بنانے کا مقصد حسین نواز کی وفات کی صورت میں ان کی دو بیویوں اور سات بچوں میں وراثت کی تقسیم ہے، حسین چاہتے ہیں ان کی وفات پر مریم ان کی جائیداد شریعت کے مطابق ان کی دو غیرملکی بیویوں اور بچوں میں تقسیم کریں۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا جب ٹرسٹ ڈیڈ 2006 کی ہے تو 2011 میں مریم نے ٹی وی انٹرویو میں کیوں کہا میری اور بھائیوں کی لندن میں کوئی جائیداد نہیں، پتہ نہیں یہ لوگ کہاں سے فلیٹس نکال لائے ہیں؟۔وکیل نے جواب دیا مریم نے انٹرویو میں کہاتھا ان کا پاکستان اور لندن میں کوئی گھر نہیں ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا مریم کی پاکستان میں جائیداد تو تسلیم شدہ ہے اس کا مطلب کہ جائیداد اور گھر میں فرق ہے۔ اس پر عدالت میں بیٹھے لوگ ہنس پڑے ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا مریم ٹرسٹی ہیں تو ان کو اثاثوں کامعلوم ہونا چاہیے کیونکہ تقسیم ان کے ذمے ہے، ہم ان تمام کڑیوں کو جوڑیں گے اگر زنجیر ٹوٹی ہوئی نہ ہو۔ وکیل بولے کیا درخواست گزار نے عدالت سے رجوع کرنے سے قبل دستاویزات یا ثبوت جمع کرانے کا اپنا فرض ادا کیا؟ کم ازکم تصدیق شدہ کاغذ ہی جمع کرادیتے ۔ جسٹس عظمت نے پورے مقدمے کا خلاصہ نکالتے ہوئے کہا مریم کو ٹرسٹی ثابت کرنے سے قبل حسین نواز کو فلیٹوں کا مالک ثابت کریں۔
(دلچسپ بات ہے کہ کامن سینس کے جن سوالات کو اٹھا کر ججوں نے مریم نواز کے وکیل کو مشکل میں ڈالا وہ تحریک انصاف کے وکیل نے کسی بھی موقع پر نہ پوچھے، مثلا یہ سوال کس قدر آسان ہے کہ مریم اور حسین لندن فلیٹوں کیلئے 2006 میں ٹرسٹ ڈیڈ بناتے ہیں اور اسے عدالت میں تسلیم بھی کرتے ہیں مگر مریم 2011 میں ٹی وی انٹرویو میں اپنی اور بھائیوں کی لندن جائیداد سے انکاری ہیں۔ میرا تبصرہ)