کالم

خصوصی طیارہ

جنوری 6, 2020 3 min

خصوصی طیارہ

Reading Time: 3 minutes

ماجد جرال ۔ صحافی

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے گذشتہ اجلاس میں شرکت کے لیے وزیراعظم عمران خان نے وہی سعودی خصوصی طیارہ استعمال کیا جسے استنبول میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے لیے جانے والی ٹیم نے استعمال کیا تھا۔

یہ بات سننے کے بعد میں چند لمحوں کے لیے عجیب سی کیفیت کا شکار ہوگیا اور پھر ستمبر 2019 میں پہنچ چکا تھا۔

"سعودی مہمان نواز ہیں” یہ فقرہ اس وقت پاکستان کے ہر منظر نامے پر چھایا ہوا نظر آیا جب 20 ستمبر 2019 کے روز وزیراعظم عمران خان کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے حکم پر اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں شرکت کی غرض سے نیویارک جانے کے لیے سعودیہ سے خصوصی طیارہ فراہم کیا گیا۔چونکہ وزیراعظم عمران خان سادگی کا ڈھول پیٹتے ہوئے عام مسافر طیارے کی فرسٹ کلاس میں سعودی عرب پہنچے تھے مگر سعودی عرب میں ڈھول پیٹنے پر پابندی ہے اس لیے یہ سادگی کا ڈھول گلے سے اتارنا پڑا۔ یاراں ریاست نے اس بیانیہ کو بھی خوب اچھالا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنا ذاتی طیارہ عمران خان کے لیے وقف کیا ہے، حالانکہ یہ سراسر جھوٹ تھا۔

پھر 27 ستمبر 2019 کو وزیراعظم عمران خان اپنے وفد کے ہمراہ نیویارک کے جان ایف کینیڈی ائیرپورٹ سے شام کے سوا پانچ بجے کے قریب محو پرواز ہوئے اور اڑھائی سے تین گھنٹے کی پرواز کے بعد اچانک سعودی مہمان نوازی کے دونوں پروں کو سفارتی زنگ آلودگی نے آن گھیرا اور طیارہ بحراوقیانوس(اٹلانٹک اوشن) کے اوپر سے ہی واپس جان ایف کینیڈی ائیرپورٹ پر لا کے اتارا گیا۔ یہ طیارہ مزید تین سے چار گھنٹے کی پرواز کے بعد برطانیہ اتر سکتا تھا اور ٹورنٹو کینیڈا یا بفلو نیویارک بھی اتارا جاسکتا تھا۔

ذرائع کے مطابق خصوصی طیارہ کسی فنی خرابی کی کال پر نہیں بلکہ امریکی جنگی طیاروں کی سلامی میں واپس لایا گیا۔ یہ باتیں سب جانتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کو ائیرپورٹ پر ہی روکا گیا اور بعد ازاں وہ عام مسافر طیارے پر سعودی عرب کے لیے روانہ ہوئے۔

اس دوران ائیرپورٹ پر کیا چلتا رہا، اس معاملے پر پاکستان کے وزیر اعظم ہائوس سے لے کر دفتر خارجہ تک سبھی زبانیں خاموش تھیں۔ موصوف نے لب کشائی کرتے ہوئے بتایا کہ اس دوران وزیراعظم عمران خان سے امریکی سیکورٹی اداروں نے سفارتی آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تفتیش کی اور متعدد سوالات کے بعد بتایا کہ یہ طیارہ جمال خاشقجی قتل شازش میں استعمال ہوا ہے لہذا امریکی ادارے اسے اپنے قبضے میں لے رہے ہیں۔

بعدازاں کتنا عرصہ یہ طیارہ امریکی حکام کی تحویل میں رہا یا اب بھی امریکی اداروں کے پاس ہے، اس بارے میں معلومات دستیاب نہیں ہوسکی۔

وزیراعظم پاکستان کو اس مشکل صورتحال سے نکالنے کے لیے اس وقت امریکہ میں ہی موجود آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے بھی کلیدی کردار ادا کیا، حالانکہ آرمی چیف خود خصوصی طیارے پر امریکہ پہنچے تھے اور پینٹاگون میں بھرپور بلکہ جاندار استقبالیہ بھی پایا۔


23 دسمبر کو خبر سامنے آتی ہے کہ سعودی صحافی جمال خشوگی کے قتل کے جرم میں پانچ ملزمان کو سزائے موت اور تین کو 24، 24 برس قید کی سزا کا حکم سنایا گیا ہے۔

گزشتہ برس ستمبر میں ہی جب وزیراعظم عمران خان سعودی طیارے کا عارضی قبضہ پاس رکھے ہوئے تھے تو اس دوران ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا تھا کہ ایک سعودی شہری(جمال خوشگی) سعودی حکام یا افراد کے ہاتھوں قتل ہوا ہے لہذا بطور حکمران وہ اس قتل کی ذمہ داری لیتے ہوئے کیس منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔

یہ معاملہ تو اب اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا مگر سوچ رہا ہوں کہ کیا واقعی وزیراعظم عمران خان نے جو طیارہ استعمال کیا تھا وہ سعودی صحافی کے قتل میں استعمال ہوا تھا؟ اگر ایسا ہے تو مستقبل میں سعودی مہمان نوازی سے بچتے ہوئے اپنے آرمی چیف کے ساتھ خصوصی طیارے میں مل کر سفر کر لینا چاہیے، حالانکہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے طیارے میں اس وقت بھی کوشش کرنے سے کم از کم ایک سیٹ مل ہی سکتی تھی چاہے وہ داخلی دوازے کے پاس والی ہی کیوں نہ ہوتی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے