کالم

اسٹیبلشمنٹ کا پلان بی کیا؟

جنوری 16, 2020 3 min

اسٹیبلشمنٹ کا پلان بی کیا؟

Reading Time: 3 minutes

پاکستانی سیاست کی چائے کے کپ میں طوفان ایک مستقل عمل ہے، جس میں گھسے پٹے سکرپٹ کی وجہ سے ہر آنے والے دن کے ساتھ ہیجان خیزی میں کمی ہورہی ہے،لوگ پہلے پس پردہ کرداروں کے بارے میں ڈرائینگ روموں میں بات کرتے تھے اور اب حجام کی دکان، کریانے کی دکان سے لیکر چنچگی رکشے میں ان کرداروں کا تذکرہ ایک عام سی بات بن گئی ہے۔


ٹی وی کے ٹاک شوز میں معدودے چند اینکر ڈھکے چھپے الفاظ میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کے ذمہ داران کا اشارے کنایے میں تذکرہ کرتے تھے اور اس کی سزا پاتے تھے۔
پھر یہ ہوا کہ کم ہوتی ہوئی سنسنی کو بڑھانے کے لئے ان اینکرز نے بھی زبان کھولنی شروع کردی جن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بارگاہ بادشاہ گر میں مقبول ہیں اور یوں یہ کھلا راز” تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ” جیسے مصرعے کی طرح زبان زد عام ہوگیا۔


موجودہ صورتحال یقینی طور پر غیر مطلوب ہے کیونکہ ایسی صورتحال میں رائی کا پہاڑ بن جانا ایک معمول کا عمل ہوتا ہے۔
پاکستانی اشرافیہ نے اپنی مفادات کی جنگ میں ایک دوسرے پر کچھ زیرِ ناف حملے کر ڈالے ہیں اور اب وہ نقصان کو قابو کرنے کی کوشش میں مشغول ہیں، بدقسمتی سے اس لڑائی کے دوران جو بارودی سرنگیں زمین میں بو دی گئیں تھیں وہ وقفے وقفے سے پھٹ رہی ہیں۔
موجودہ صورتحال اس لئے بھی غیر مطلوب ہے کہ اس میں پلان ون کسی بھی موقع پر کامیاب نہیں ہوسکا، کیونکہ پہلی ترجیح یہی تھی کہ الیکشن سے پہلےنواز شریف لندن سے واپس پاکستان نہ آئیں اور عمران خان کو واک اوور مل جائے اور اس کے لیے بہت سے دانے ڈالے گئے، نواز شریف کے ماضی کو دیکھتے ہوئے اس بات کو قرین قیاس سمجھا گیا کہ وہ اس کاروباری ڈیل کو قبول کریں گے لیکن ان کے برعکس فیصلے نے پلان اے کو ناکام کردیا اور یہاں سے شکست و ریخت کا ایک عمل شروع ہوگیا۔


الیکشن کے نتائج کے فوری بعد نہ صرف عزت کو اپنے اور ذلت کو مخالف سیاسی جماعتوں کے خانوں میں بانٹا گیا بلکہ اس پر خدائی مہر بھی ثبت کردی گئی۔
بھان متی کے کنبے کو جوڑنا بھی ایک مشکل کام تھا لیکن یہ مرحلہ بھی سر ہوگیا۔


اسے آپ بدقسمتی کہیں یا حالات کا جبر کہ اس عمل میں جو کھینچا تانی ہوئی وہ طاقت کے ارتکاز کا باعث بنی اور بادشاہ گروں کو اپنے انڈے متعدد ٹوکریوں کی بجائے ایک ہی ٹوکری میں رکھنے پڑ گئے جو کہ ایک تزویراتی غلطی تھی،ہر آنے والے دن کے ساتھ یہ معمولی سے غلطی پھلتی پھولتی رہی اور بالآخر ایک ٹیلے کی شکل اختیار کرگئی۔
شہ دماغوں کو اس بات کا احساس ہونا شروع ہوگیا کہ اپنے سابقہ حلیفوں کو حریف بنانا سب سے مشکل ہوتا ہے اور کسی بھی بحرانی صورتحال میں پلان بی چلانا مشکل ہوجاتا ہے۔


بادشاہ گروں نے ہما اپنے من پسند مہرے پر بٹھا تو دیا لیکن ان کی توقعات پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی ہیں، اور یوں کھیل کے اس حصے کا آغاز ہوگیا جسے آپ آجکل دیکھ رہے ہیں۔رعایتیں،ملاقاتیں اور وعدے وعید کا ایک سلسلہ جو آپ اس وقت دیکھ رہے ہیں حالات کا جبر ہے نہ کہ پہلی ترجیح۔


جب آپ کو اس بات کا پتہ چلے کہ آپ نے ایک ہی ٹوکری میں جو انڈے رکھے تھے وہ تیزی سے گندے نکلنا شروع ہوگئے ہیں تو آپ کا پلان بی بنانا ایک فطری عمل ہے نہ کہ اضطراری۔
جنوری سے مارچ تک کے اس سہ ماہی میں ابھی آپ کو سوکنوں کی لڑائی دیکھنے کے متعدد مواقع ملیں گے لہذا اپنی سیٹ بیلٹس باندھ کے رکھیں اور اس دوران سنگترے اور مونگ پھلیاں پاس رکھیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے