کالم

وائرس کے عالمی سیاست پر اثرات

اپریل 17, 2020 5 min

وائرس کے عالمی سیاست پر اثرات

Reading Time: 5 minutes

ثنا اللہ بھٹی

14 اپریل کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا اپنے "بنیادی فرائض” کی انجام دہی میں کوتاہی کے سبب امریکہ اس کی سالانہ فنڈنگ کی کٹوتی کرے گا۔

یہ اعلان امریکی صدارتی دوڑ میں ڈیموکریٹس کی طرف سے جو بائیڈن کی فیصلہ کن نامزدگی کے ایک دن بعد آیا۔ ٹرمپ انتظامیہ کا یہ اعلان ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی میں غفلت کو سیاسی پہلو کے تناظر میں سمجھنے کے نتیجے میں سامنے آیا ہے۔

مارچ کے اواخر میں ایک پریس کانفرنس میں سوالات کے سیشن کے دوران جب آگنائزیشن میں تائیوان کی عدم شمولیت پر سوال کیا گیا تو ڈبلیو ایچ او نے سفارتی ٹال مٹول کی بجائے اسے چین سے وابستہ ایک اکائی کا تاثر دیا. جس سے امریکی میڈیا میں طوفان بپا ہوگیا. چونکہ امریکہ تائیوان کو چین سے علیحدہ ایک اکائی سمجھتا ہے, اس لیے ڈبلیو ایچ او کی طرف سے چینی موقف کے مطابق تائیوان کا درجہ طے کرنا کسی صورت قابل قبول نہیں تھا. اسی وجہ سے ٹرمپ نے آرگنائزیشن کو اس کے بنیادی فرائض سے ہٹ کر سیاسی وابستگی کے پہلو کو اجاگر کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے.

ستائیس دسمبر سے پھیلی کرونا وائرس کی اس وبا پر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا پہلا تجزیاتی تبصرہ چودہ جنوری کو سامنے آیا تھا جس میں اس وائرس کے پھیلاؤ میں انسان سے انسان کے ذریعے کی نفی کی گئ تھی. تاہم دس دن بعد چوبیس جنوری کو ڈبلیو ایچ او نے کرونا وائرس کے انسانی پھیلاؤ کی تصدیق کی. اس کے باوجود ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے جنوری کے آخر میں ووہان سے بین الاقوامی فضائی سفر کی پابندی کو مسترد کرتے ہوئے اسے معمول کا وائرس ہونے کا تاثر دیا. ڈبلیو ایچ او کا پہلا تحقیقاتی مشن بھی قدرے تاخیر سے بارہ فروری کو چینی سرزمین پر اترا. اور گیارہ مارچ کو کرونا وائرس کو عالمی وبا قرار دیا گیا. کرونا وائرس کو روایتی انداز میں جانچنے کے سبب ہونے والی تاخیر سے یہ وائرس نہ صرف پوری دنیا میں پھیلا بلکہ کئ ممالک اس خطرے سے نمٹنے کیلئے بروقت حفاظتی تیاری سے بھی محروم رہے۔

شدت پسند خیالات کے حامل مغربی میڈیا میں کرونا وائرس کے اس پھیلاؤ کو سیاسی رنگ دے کر سازشی تھیوریوں سے لتھڑی ایسی تحقیقات اور ان پر مبنی تجزیات پیش کئے جارہے ہیں جسے دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھر بیٹھے تین ارب افراد کی ذہن سازی نفرت اور شکوک و شبہات پر ہورہی ہے۔


ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو سب سے زیادہ چار سو ملین ڈالرز فنڈ دینے والی امریکی ریاست حیرت انگیز طور پر ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈراس ادھانم کو چینی آلہ کار ثابت کرنے پر تلی ہے. ملیریا ریسرچ کے حوالے سے عالمی شہرت رکھنے والے پچپن سالہ ٹیڈراس کا تعلق افریقی ملک ایتھوپیا سے ہے جو اسوقت چین کے بیلٹ روڈ منصوبے میں افریقی حب کی حیثییت رکھتا ہے۔

مغربی میڈیا چین کی ایتھوپیا میں آٹھ سو تین ملین کی لاگت سے بننے والے ہیلتھ سنٹر اور جبوتی میں واقع چینی ملٹری اسٹیشن کی ایتھوپیا سے بذریعہ ریل ٹریک جوڑنے کے منصوبوں کو ٹیڈراس کے مفادات سے جوڑ کر پیش کر رہا ہے. علاوہ ازیں کچھ تجزیہ کار فروری میں چین کی جانب سے تین ارب ماسک، سینیٹائزرز اور دیگر طبی آلات کو ذخیرہ کرنے کے عمل کو بھی ڈبلیو ایچ او کی غیرذمہ داری سے منسلک کررہا ہے کیونکہ ڈبلیو ایچ او نے کرونا وائرس کو ایک عالمی وبا قرار دینے میں تاخیر کی۔ اگرچہ امریکہ کے علاوہ دیگر مغربی ممالک کے سرکاری موقف محتاط ہیں لیکن آزاد میڈیا اس سلسلے میں شدومد سے یہ بیانیہ بنا رہا ہے کہ اس سارے عمل کے پیچھے چین کے سیاسی و معاشی مفادات ہیں جن کا تحفظ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے تعاون سے ممکن ہورہا ہے۔


دوسری جانب چین کے ردعمل نے عالمی سیاسی ماہرین کو حیرت میں مبتلا کردیا. دایاں بازو کے اس انتہاپسندانہ پروپیگنڈا کے جواب میں چین نے بھی ایک انتہا پسندانہ بیانیہ تشکیل دینا شروع کردیا ہے. چین اس وائرس کا مرکز اٹلی کو قرار دے کر اپنی عوام کو یقین دلا رہا ہے کہ چین کی بڑھتی ترقی دنیا کو ہضم نہیں ہوپارہی اسی لئے تمام دنیا مل کر چین کے خلاف یکجا ہے۔

اس جوابی نفرت آمیز بیانیے کا نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ چین میں امریکی اور یورپی سمیت افریقی کمیونٹی کے لوگوں کو چینی ہجوم کی جانب سے نفرت, نسل پرستانہ فقرے بازی اور تشدد تک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے. صبروتحمل اور حکمت پسندانہ سفارتکاری چین کا خاصہ رہی ہے. ایک ایسے وقت میں جب ناقدین بھی چین کی سپرپاور بننے کی صلاحیت کو تسلیم کر چکے ہیں, اس اثنا میں چین کی جانب سے ایسا نفرت آمیز ردعمل کی ترویج دینا حیرت کا باعث ہے. چین کے اس رویے کے سبب دنیا بھر کی ملٹی نیشنل کمپنیز کے ایک تہائی مینوفیکچرنگ پلانٹس میں سے 37 فیصد اب دیگر سستی لیبر کے حامل ممالک کا رخ کرنے کا ارادہ ظاہر کر رہے ہیں۔


بادی النظر میں کرونا وائرس کی تباہ کاری اب تیزی سے سیاسی منظر پر بھی حاوی ہونے جارہی ہے. عالمی منظرنامے میں اس وقت چین اور مغربی ممالک جس میں امریکی میڈیا اور حکومت پیش پیش ہے نے الزامات کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع کردیا ہے. مغربی میڈیا تسلسل کے ساتھ یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ چین نے اول تو اس وائرس کو چھپانے کی کوشش کی. لیکن جب یہ قابو سے باہر ہوگیا تو اسے سائنسی کی بجائے سیاسی فوائد کے حصول کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی جس کی بدولت وائرس نے تیزی سے پھیلتے ہوے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا. مغربی میڈیا اس غلطی کا ذمہ دار ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو بھی قراردیتا ہے جس نے مبینہ طور پہ سست روی سے کام لیتے ہوئے چینی حکام کو اس وائرس سے سیاسی و معاشی مفادات کے حصول میں مدد فراہم کی. یہ بحث ایک ایسے شدت پسندانہ رجحان کو جنم دینے والی ہے جو براہ راست بین الاقوامیت کو نقصان پہنچائے گی. ریاستی سطح پر الزام تراشی ایک عمومی رویہ ہے لیکن کسی عالمی تنظیم پر یوں حملہ کرنا باعث تشویش ہے. ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ایک عالمی استعارہ ہے جس پر سنگین الزام تراشی بین الاقوامیت پر یقین کو متزلزل کر کے مطلق انارکی کی طرف دھکیلنے کی ایک کوشش ہے. مخالفت اور نفرت پر مبنی یہ ذہن سازی ہر سوسائٹی میں قومیت پرستی, انتہا پسندانہ سیاسی پالیسیز, سرحدی ناکہ بندیوں, سخت معاشی قانون سازیوں اور جارحانہ سفارتکاری کو عروج ملنے کا بہترین موقع فراہم کر رہی ہے. جس کی بدولت ریاستوں کے اندرونی, علاقائی اور بین الاقوامی مسائل کو ایک نئ شدت پسندانہ جہت ملنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں. یہ مفروضہ اب حقیقت کا روپ دھارنے لگا ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اقوام متحدہ کے زیرسایہ عالمی تعاون, مشترکہ ذمہ داری، قانونی و اخلاقی اقدار کی پاسداری کے تحت تشکیل پانے والے جس ڈھانچے کا خواب قانونی, معاشی, سیاسی و سفارتی دانشوروں اور لیڈروں نے دیکھا تھا وہ اب ٹوٹنے کے مرحلے پر ہے. نائن الیون کے بعد سے جنم لینے والے پاپولزم کے رجحان سے جاری کشاکش اب پاپولزم کی برتری کی جانب بڑھنے لگی ہے. جس کا خمیازہ یقیناً پوری دنیا یکساں طور پر بھگتے گی۔

کرونا وائرس کے بحران کے بعد معاشی و سماجی مسائل کا پاپولزم سے خوفناک اشتراک ریاست کی اندرونی و بیرونی تنازعات میں ایک نیا رخ پیدا کرنے کے امکانات پیدا کر سکتا ہے جس سے مجموعی طور پر مسائل میں اضافہ ہی ہونا ہے. ایسے میں عوامی سطح پر یہ بیداری لازمی ہے کہ دہشت گردی, ماحولیاتی آلودگی, وبائی امراض اور غربت کی کوئی سرحدیں نہیں. یہ عالم انسانیت کے مشترکہ مسائل ہیں جن کا حل مشترکہ لائحہ عمل سے ہی ممکن ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے