کالم

منگولیا اور ہمارا قومی اثاثہ

مئی 20, 2020 3 min

منگولیا اور ہمارا قومی اثاثہ

Reading Time: 3 minutes

راجہ اویس

اگر کسی ملک کے پاس سمندر نہیں تو یقیناً اس کے پاس نیوی بھی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ نیوی کسی بھی ملک کی فوج کی وہ شاخ ہے جو اپنے ملک کی سمندری حدود کی نگران ہوتی ہے ۔
کوئی بھی ملک جو ہر طرف سے زمین سے گھرا ہو اسے لینڈ لاک ملک کہا جاتا ہے، دنیا میں ایسے بہت سے ممالک ہیں جن کی سرحد کسی طرف سے بھی سمندر سے نہیں ملتی.

اہم بات یہ کہ دنیا میں کچھ لینڈ لاک ممالک ایسے بھی ہیں جو سمندری سرحد نہ ہونے کے باوجود نیوی رکھتے ہیں، ان ممالک میں سوئٹزر لینڈ، بولیویا اور منگولیا کی نیوی کے بارے میں جاننا دلچسپ ہو گا۔

منگولیا آج سے تقریباً 700 سال پہلے بہت بڑا ملک تھا ، تقریباً سارا چین، روس، ایران اور افغانستان منگولیا کا حصہ تھے، اُس وقت اس کے پاس پانج ہزار سے زائد بحری جہاز ہوا کرتے تھے، لیکن آج کا منگولیا ویسا نہیں رہا، آج یہ چین اور روس جسی بڑی طاقتوں میں گھِرا ہوا ہے اور اس کی کوئی سرحد سمندر سے نہیں ملتی ، اس کے باوجود منگولیا کے پاس ایک بحری جہاز اور چند نیوی اہلکار ہیں اور کہا یہ جاتا ہے کہ ان میں سے صرف ایک تیراکی جانتا یے۔ یہ نیوی روس اور منگولیا کے درمیان ایک چھوٹی سی ندی میں آپریٹ کرتی ہے جہاں اس کا ذمہ تیل کی درآمد پر نظر رکھنا ہے۔ یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ منگولیا کے پاس نیوی صرف نام کی ہی ہے.

بولیویا بھی لینڈ لاک ملک ہونے کے باوجود نیوی رکھتا ہے اس کے پاس 173 بحری جہاز ہیں اور عملے کی تعداد تقریباً پانچ ہزار ہے۔ یہ بحری فوج علامتی ہے کیونکہ تقریباً 140 سال پہلے بولیویا بھی لینڈ لاک ممالک میں شمار نہیں ہوتا تھا ، 1879 میں ہونے والی چِلی کے ساتھ جنگ کی وجہ سے بولیویا لینڈ لاک ممالک کی فہرست میں شامل ہوا۔ بولیویا کی نیوی شاید علامتی ہے اور وہاں کے باشندوں کو آج بھی یہ یقین ہے کہ چِلی کے ساتھ جنگ میں کھویا ہوا علاقہ انہیں واپس مل جائے گا اور ان کی نیوی ایک بار پھر قابلِ استعمال ہو گی۔

ان سب سے الگ معاملہ سوئٹزر لینڈ کا ہے ، 1940 میں یہ ملک دنیا سے الگ ہو گیا تھا اور اسے تجارت میں بہت دشواری پیش آئی ، جس کا حل نکالنے کے لیے بحری فوج بنائی گئی ، اس کا کام ٹریڈ روٹ کی نگرانی ہے ، یہ ٹریڈ رُوٹ سوئٹزر لینڈ میں موجود "بیزل” بندرگاہ کو "رائن” نامی دریا کے ذریعے ہالینڈ کے سمندر سے ملاتا ہے۔ سوئٹزر لینڈ کی تجارت اسی راستے سے ہوتی ہے اور سوئز نیوی اس راستے کو گارڈ کرنے کی زمہ داری سر انجام دیتی ہے۔

اب یہ کہا جا سکتا ہے کی سوئٹزر لینڈ کی نیوی پریکٹیکل کاموں کے لیے بنائے گئی، بولیویا کی نیوی علامتی جبکہ منگولیا کی نیوی برائے نام ہے ۔

منگولیا نے شائد اپنی نیوی قومی ورثہ کے طور پر رکھی ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کے پاس ایسا کیا ہے جو کسی کام کا نہیں لیکن پھر بھی ہم اسے سینے سے لگا کر بیٹھے ہیں؟

ہمارے ملک میں بھی شاید ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو برائے نام یا علامتی ہیں، جن میں سر فہرست ہماری رویت ہلال کمیٹی ہے جو چاند کی رویت کا اعلان کرتی ہے حالانکہ سائنس کی مدد سے کئی سو سال کا قمری کیلنڈر بنایا جا سکتا ہے، لیکن پھر بھی مفتی صاحب ہر بار سائنس کی بنائی ہوئی گاڑی میں بیٹھ کر گھر سے نکلتے ہیں، سائنس کی بنائی ہوئی عینک لگا کر سائنس کی بنائی ہوئی دوربین سے چاند دیکھ کر سائنس کے بنائے ہوئے مائیک اور کیمروں کے سامنے بیٹھ کر اعلان فرماتے ہیں کہ اس معاملے میں سائنس کی کوئی اہمیت نہیں۔

سیاست کی میدان میں ہمارے پاس نعرے ہیں ، جیسا کہ پیپلز پارٹی کا نعرہ "مانگ رہا ہے ہر انسان ، روٹی کپڑا اور مکان” پچاس سال سے نہ روٹی ملی نہ کپڑا اور نہ مکان لیکن نعرے ہیں کے چلتے ہی جا رہے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے سربراہان شریفین کی ڈائیلاگ بازی ’اگر ہمارے خلاف ایک دھیلے کی کرپشن بھی ثابت ہوئی تو ہم سیاست چھوڑ دیں گے” ۔۔۔ پانامہ آیا ، سپریم کورٹ میں مقدمہ چلا، رسدیں مانگی گئیں ، نااہلی ہوئی، نیب کورٹ میں مقدمہ چلا پھر رسدیں مانگی گئیں ، اثاثے نکلے، آف شور کمپنیاں نکلی، لیکن رسدیں نہ نکلیں ، سزائیں ہوئیں نااہلیاں ہوئیں مگر نعرہ آج بھی وہی کے ایک دھیلے کی کرپشن ثابت ہوئی تو سیاست چھوڑ دیں گے۔‘

ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے علاؤہ پی ٹی آئی کے نعرے بھی منگولیا کی نیوی کی طرح ہیں، انتخابات سے قبل بہت شور سنا کہ ’چوروں کو الٹا لٹکائیں گے‘ ، نواز شریف کو بہت کچھ ثابت ہونے کے بعد بھی ملک سے جانے دیا، چینی چوروں کی رپورٹ جو 25 اپریل کو آنی تھی نہ آ سکی، آئی پی پیز کی تحقیقات کو دو ماہ کے لیے سرد خانے میں ڈال دیا گیا ، لیکن پارٹی اور خان صاحب اپنے نعرے پر آج بھی منگولیا کی نیوی کی طرح قائم کہ چوروں کو لٹکائیں گے۔

کہنا صرف یہی کہ ہم کسی سے کم نہیں ہمارے پاس بھی ایسا بہت کچھ ہے جو قابل استعمال نہیں لیکن پھر بھی ہم قومی ورثہ سمجھ کر ان سب کو اپنے سینے سے لگا کر رکھتے ہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے