کورونا سے دنیا کو فائدہ بھی ہوا؟
Reading Time: 3 minutesزین زبیر طاہر
دنیا میں کورونا سے اب تک لاکھوں اموات ہو چکی ہیں اور ساری دنیا لاک ڈائون میں ہے ، ان دیکھے خوف نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک کی معیشتیں تباہی کی طرف جا رہی ہیں۔ مختلف ممالک میں سائنس دان کرونا سے نجات کی ویکسین تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ ابھی تک یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ مزید کتنے لوگ اس وبا کے ہاتھوں اپنی جان گنوا دیں گے، معیشت کو اور کتنا نقصان پہنچے گا، ویکسین کی تیاری اور اس وبا سے جان چھڑانے میں مزید کتنا وقت درکار ہو گا اور سب سے اہم یہ کہ کورونا کے بعد دنیا کیسی ہوگی ۔
جہاں اس وبا سے دنیا کو بہت سے نقصانات اٹھانا پڑے ہیں وہیں کچھ فوائد بھی حاصل ہوئے ہیں، ان فوائد میں سرِ فہرست آلودگی سے وقتی چھٹکارا ہے۔
اگرچہ کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے دوران نقل و حمل میں کمی سے پوری دنیا میں آلودگی کی سطح کو کم کرنے میں مدد ملی ہے ، ٹریفک میں سست روی سے شور کی آلودگی میں بھی واضح کمی آئی ہے ۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ، شور کی آلودگی کا اثر پورے یورپ میں ایک سو ملین سے زیادہ افراد پر پڑتا ہے ۔
مشہور جریدے "فوربز” کے مطابق مصنوعی سیارہ سے حاصل تصاویر بتاتی ہیں کہ کچھ شہروں میں فضائی آلودگی ایک سال پہلے کی نسبت آدھے سے کم ہے ، جو پوری دنیا میں فضائی آلودگی پر کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن کے اثرات کو ظاہر کررہی ہے۔
نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ ایک مضر صحت گیس ہے جو سانس لینے میں دشواری کا سبب بنتی ہے ۔ فضا میں موجود دوسرے کیمیائی مادوں سے اس کے ملاپ کے بعد یہ پارٹیکلولیٹ آلودگی میں تبدیل ہوتی ہے ، جس کو مختلف اداروں نے دنیا کی فضائی آلودگی سے 7 ملین سالانہ اموات کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا ہے۔
نائیٹروجن ڈائی آکسائیڈ گاڑیوں ، بجلی گھروں اور فیکٹریوں میں ایندھن کے جلنے سے پیدا ہوتی ہے۔ کاروبار ، فیکٹریاں اور ٹرانسپورٹ بند ہونے کی وجہ سے اس گیس کا اخراج بھی کم ہوا ہے، "فوربز” کے مطابق پیرس میں نائیٹروجن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 54 فیصد جبکہ میلان اور روم میں 45 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
لیکن آلودگی اور اس میں کمی یا اضافے کا پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، ہمارے ملک میں اہم ہے تو سیاست اور وہ بھی کرسی کی سیاست کیونکہ ہمارے ملک میں ہر معاملے کو بلآخر سیاست کی بھینٹ چڑھنا ہوتا ہے ۔
ایسے جیسے ہر معاملے میں سیاسی بیانات داغنا ثواب کا کام ہو ، کبھی موت پر سیاست کبھی زندگی پر سیاست ، کبھی کسی کی بیماری ، شادی، طلاق پر سیاست ، کھیلوں پر سیاست اور اب تو کورونا پر بھی سیاست چمکانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جا رہا۔
کورونا کی سیاست سے سب سے زیادہ فائدہ سندھ میں پچھلے بارہ سالوں سے حکومت کرنے والی جماعت پیپلز پارٹی کو ہوا جن کی کورونا کا مقابلہ کرنے کے اقدامات کی دھوم میڈیا پر رہی ، ہر طرف سے تعریفیوں کے پل باندھے گئے، جبکہ دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو میڈیا میں وہ کوریج نہ مل سکی جو وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے حصے میں آئی۔
اس تمام تر تعریف کے بعد ذہن میں یہی حیال آتا ہے کہ پیپلز پارٹی کا کوئی منصوبہ ایسا نہیں جس میں کرپشن کی ملاوٹ نہ ہو چاہے وہ نوے کی دہائی میں آئی پی پیز لگانے کا منصوبہ ہو یا رینٹل پاور پراجیکٹ ہو۔ حالیہ ادوار میں جعلی اکاؤنٹ سکینڈل ہو یا آٹا سکینڈل، او۔جی۔ڈی۔سی۔ایل کا معاملہ ہو یا ایفیڈرین کیس، سندھ حکومت شفافیت کے کانسپٹ سے میلوں دور نظر آتی ہے۔۔ 2012 میں ، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے حساب لگایا کہ پاکستان نے پی پی کی زیرقیادت مخلوط حکومت میں بدعنوانی ، ٹیکس چوری اور بیڈ گورننس سے8.5 کھرب روپے سے زیادہ کا نقصان اٹھایا ہے۔
ابھی میڈیا اور سوشل میڈیا پر پیپلز پارٹی کے کورونا کے حلاف زبردست اقدامات کی تعریف جاری تھی اور سندھ کو باقی تمام صوبوں پر کورونا سے نمٹنے کے لیے لیے گئے اقدامات میں سبقت حاصل ہو رہی تھی کہ سپریم کورٹ اور سندھ ہائیکورٹ میں ہونے والی سماعتوں میں ججز نے کچھ سوال پوچھ لیے۔
سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ سندھ میں آٹھ ارب روپے مالیت سے خریدے اور تقسیم کیے جانے والے راشن کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تاہم حکومت کے وکیل نے کہا کہ تمام ریکارڈ موجود ہے اور رقم آٹھ ارب نہیں ہے، شاید ججز کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو۔
حقیقت کیا ہے؟ اس کا علم تو اگر تحقیقات ہوئیں تو معلوم ہو جائے گا لیکن ماضی کو دیکھتے ہوئے لگتا یہی ہے کہ ہمیشہ کی طرح یہ سکینڈل بھی ردی کی ٹوکری میں چلا جائے گا ، لیکن حقیقت یہ کہ دیہاڑی لگانے والوں نے کورونا جیسی آفت میں بھی دیہاڑی لگانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔