جدید میڈیسن بمقابلہ ”آلٹرنیٹو میڈیسن“
Reading Time: 3 minutesڈاکٹر عزیر سرویا
جدید میڈیسن (جسے ایلوپیتھی کہنا غلط العام ہے) بنیادی طور پر ان اصولوں پر کھڑی ہے:
-مادی (قابل مشاہدہ) معاملات میں سچ تک پہنچنے کا بہترین ذریعہ سائنس ہے- جو چیز قابل مشاہدہ نہیں (سُپر نیچرل چیزیں مثلاً روح)، وہ سائنس کا موضوع نہیں بن سکتی-کسی بھی ناقابل مشاہدہ غیر مادی شے کا کوئی اثر مادی وجود پر قبول نہیں کیا جائے گا، مادی پراسیس کو کسی مادی پراسیس ہی سے جوڑا جائے گا۔
اگر کوئی طریقہ علاج اوپر دیے گئے کسی اصول کا نظریاتی طور پر مخالف ہے تو اس طریقہ علاج کو جدید میڈیسن کا پریکٹیشنر فالو نہیں کرے گا- لیکن اگر ایسا طریقہ علاج جو نظریاتی اختلاف رکھتے ہوئے اپنے کسی پہلو سے پریکٹیکل اعتبار سے مریض کے لیے ریلیف کا باعث ہو جائے (نفسیاتی مدد کی صورت میں یا کسی بھی دیگر نامعلوم وجہ سے) تو اس مخصوص پریکٹیکل پہلو کو جدید میڈیسن کے تحت ذکر کیا جانا لازم ہے اور مریض کو اس کے بارے بتانا یا آپشن دینا ایک سٹینڈرڈ پریکٹس ہے۔
جدید میڈیسن کا واحد مقصد انسان کی زندگی اور اس کی صحت (جس میں جسمانی و نفسیاتی دونوں شامل ہیں) میں جتنا ہو سکے اتنا اضافہ کرنا ہے۔ مثال کے طور پر اگر سایئنسی معیار پر پوری اترتی تحقیق یہ ثابت کر دے کہ آکیوپنکچر سے کمر کے نچلے حصے کے درد کو آرام پہنچنے کا امکان ہے یا cupping سے درد میں کمی واقع ہو سکتی ہے تو اس بات سے قطع نظر کہ ان کا نظریاتی پس منظر کیا ہے، جدید میڈیسن ان کو بطور قابل استعمال آپشن مریض کے سامنے ذکر کر دینے کی حمایت کرے گی۔ بلکہ دم درود سے اگر کسی مریض کو سکون ملنے کا امکان ہو تو وہ بھی میڈیکل کی کتابیں کہتی ہیں کہ بالکل آپشن ذکر کرنا لازم ہے۔ جب تک کوئی متبادل طریقہ علاج براہ راست جدید میڈیسن سے نہ ٹکرائے، اس کی گنجائش دی جاتی ہے۔
یہی وہ رویہ ہے جو جدید میڈیسن کی ترقی کا راز ہے: یہ اپنے مقصد، یعنی انسانی زندگی اور صحت کے حصول، پر اس حد تک فوکس و کاربند ہے کہ بنیادی مفروضوں سے ٹکراتے علاج کو بھی مریض کی بہتری کے لیے اپنے اندر ضم کر لینے کی اہل ہے۔ کیس اسٹڈی دیکھیں۔
آکیوپنکچر کے پیچھے چینی حکماء ”لائف فورس“ یا چی (qi) انرجی کا عمل دخل بتاتے ہیں جو کہ قابل مشاہدہ شے نہیں ہے۔ اگر ناقابل مشاہدہ چیز کے مادی چیزوں پر اثر ڈالنے والے مفروضے کو مان لیں تو سائنس اسی جگہ پر رک جائے گی: جو چیز قابل مشاہدہ ہے ہی نہیں اس کو مسخر کرنے یا اس پر تجربے کرنے کا کوئی کیا جگاڑ کر سکتا ہے؟ تو سائنسدانوں نے جب مشاہدہ کیا کہ آکیوپنکچر سے کچھ کیسز میں درد میں کمی دیکھی گئی تو انہوں نے بجائے لائف فورس والی ناقابل مشاہدہ بونگی پر ایمان لانے کے، مزید تحقیق شروع کی جس سے اب تک کے شواہد کے مطابق یہ پتا چلا ہے کہ سوئیاں لگانے سے neuronal stimulation عمل میں آنے سے چند مخصوص کیمیکلز کا اخراج ہوتا ہے جو قدرتی پین کِلر کا کام کرتے ہیں۔ اب جب یہ معلوم ہو گیا تو سائنس خود بخود تحقیق کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اسی کیمیکل کے اخراج کے دوسرے ذرائع کھوجنے میں مصروف ہو جائے گی، اور کچھ عرصے میں کوئی بہترین چیز ہمارے پاس آ چکی ہوگی جو لائف فورس یا چی (qi)جیسی ہوائی بات کی بجائے کسی ٹھوس قابل مشاہدہ بنیاد پر استوار ہو گی۔
فرض کریں سائنسدان مان کر بیٹھ جاتے کہ کوئی ناقابل مشاہدہ لائف انرجی یا فورس ہی درد کم کرتی ہے، تو یہ معلوم نہ ہو پاتا کہ کون سا مادہ دراصل یہ کام کر رہا ہے۔ پھر اس سے آگے اس کے اخراج پر اثر انداز ہوتے مزید ذرائع کی کھوج کا پراسیس شروع ہونے کی نوبت بھی نہ آ پاتی!
اب ان گزارشات کی روشنی میں اگلی قسط میں کچھ لوگوں کے اس دعوے کا جائزہ لیں گے کہ طب اسلامی/ہومیوپیتھی/ہندی حکمت کو جان بوجھ کر پنپنے نہیں دیا جا رہا کیونکہ اس سے جدید میڈیسن کا بزنس بند ہو سکتا ہے۔ (جاری ہے)