کالم

لبرل ازم، طنز اور سائنس

دسمبر 18, 2020 3 min

لبرل ازم، طنز اور سائنس

Reading Time: 3 minutes

لبرل دوستوں کی ”دانشوری“ کا پوری طرح قائل ہوں، لیکن کبھی ان کی یہ بات/طنز سمجھ نہیں آ سکے:
”اس نے کرسچن ہیگن کی ایجاد کردہ گھڑی کو دیکھا۔ نماز کا وقت قریب تھا ۔ وہ اٹھا اور ایڈی بوئر کی ایجاد کردہ جیکٹ پہنی ، ڈیملر اور میبچ کا ایجاد کردہ موٹر سائیکل نکالا اور مسجد کی جانب روانہ ہو گیا ۔۔ اس نے میڈ ان چائنہ جائے نماز پہ نماز پڑھی اور دعا کےلیے ہاتھ اٹھائے :
"یا اللہ کافروں کو نیست و نابود کر اور مسلمانوں کو ان پہ غلبہ عطا فرما …”
یہ سن کر اس کے کندھے پہ بیٹھے فرشتے قہقہے لگانے لگے۔۔۔“

پوری تحریر میں ایک لبرل بھائی بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیسے مسلمان ”کافروں“ کی ایجادات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور پھر انہیں گالیاں بھی دیتے ہیں، ان کے عقائد کو برا جانتے ہیں نیز ان پر غلبہ پانے کے خواہشمند ہیں۔ اس حقیقت سے قطع نظر کہ تمام سائنسی ایجادات کی بنیاد سابقہ سائنسدانوں (جن کی بھاری مقدار مسلم دنیا سے بھی تھی) کی سائنسی خدمات ہیں، اور اس حقیقت کو بھی اگر فراموش کر دیں کہ سائنسی تحقیق میں رنگ نسل اور عقیدہ اگر ریلیونٹ رہے تو وہ تحقیق “سائنسی” رہتی ہی نہیں ہے، صرف اتنی سی بات کوئی مجھے سمجھا دے کہ کسی سے کوئی چیز استعمال کے لیے قیمتاً خریدی جائے تو اس کے عقائد، اعمال اور طرز معاشرت کا اثبات اس سے کیونکر لازم آتا ہے؟

دو کسانوں کی آپس میں مذہبی، سماجی اور سیاسی معاملات میں سوچ نہ ملتی ہو، دونوں ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہوں، ایک گندم اگاتا ہو دوسرا پیاز اگاتا ہو، دونوں اپنا مال بیوپاری کو بیچ کر دکان پر رکھوائیں، تو کیا گندم اگانے والے پر اس دکان سے پیاز خریدنے پر پابندی عائد ہونی چاہیے؟ وہ پیاز لے کر گھر جائے تو اس کی لبرل بیوی اسے کہے ”تو تو گامے کو گالیاں دیتا ہے، اس کے مذہبی عقائد کو ٹھیک نہیں جانتا، حتی کہ اس کی زمین بھی قابو کرنا چاہتا ہے، تجھے اس کا اگایا پیاز لیتے ذرا شرم نہ آئی؟“۔۔۔تو ایسے میں اس بیوی کا علاج گامے سے پہلے کرنا ضروری ہو گا۔

بھائی یہ موبائل، موٹرسائیکل، کمپیوٹر اور ادویہ انہوں نے منافع کے لیے مینوفیکچر کی ہیں، ہم ان سے قیمتاً لیتے ہیں، ایسے میں آپ ہم سے تقاضا کریں کہ ان کو مالی فائدہ پہنچا کر ان کے پراڈکٹ خریدنے کے علاوہ اب ہم ان کے شکرگزار ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کی پیروی کرتے ہوئے ان کو اپنا ابو بھی سمجھیں تو یہ کام ذرا مشکل ہے۔ ان کی ایجادات قبول کرنے یا خرید لینے سے ان کے مذہبی، سیاسی اور سماجی نظریات کو بھی قبول کر لینا کہیں لازم نہیں آتا۔

میں حسن ظن رکھتے ہوئے یہ سوچتا ہوں کہ لبرل دوستوں کو پاکستان میں سائنسی تحقیق کا رجحان نہ ہونے اور غیر سائنسی رویے رائج ہونے پر رنج اور تکلیف ہے، جس کے باعث وہ اس نوعیت کی تحریریں لکھ کے معاشرے کی سمت درست کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس بھونڈے طرز استدلال پر حیران ہوں کہ لبرل دوست عوام الناس کو مغرب کی سائنسی خدمات اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ایجادات کا احسان مند بنانے پر جو مفت میں اتنی محنت کر رہے ہیں، بھانڈوں کی طرح “بھاگ لگے رہن، بادشاہیاں سلامت رہن” کی گردان بغیر ویلیں لوٹے کر رہے ہیں، اگر اس کی بجائے یہ خود سائنس یا علم کے کسی میدان میں کوئی کارنامہ انجام دے لیں تو عوام الناس میں سائنس و تحقیق کی اہمیت زیادہ بہتر طریقے سے اجاگر ہو سکتی ہے!

اگر انہیں لگتا ہے کہ یہاں سائنس اسی وقت ترقی کرے گی جب مغرب کا پورا سماجی سیاسی اور مذہبی بیانیہ as it is یہاں امپورٹ کر کے عوام پر تھوپ دیا جائے تو ان کی دانشوری پر کچھ شک سا پڑتا ہے۔ اگر ان کے نزدیک مذہب کی رائج صورت سائنس کی ترقی میں رکاوٹ ہے تو پھر گھما پھرا کے بات کہنے کی بجائے نوم چومسکی کی طرح سیدھی بات کرنے سے ان کے علمی قد میں زیادہ اضافہ ہو گا۔ اس طرح کے بے تُکے غیرمنطقی طنز کرنے سے صرف آس پاس کے چند لبرل دوستوں (جن کو خود سائنس کی الف بے نہ پتا ہو گی) کی واہ واہ تو سمیٹی جا سکتی ہے لیکن کوئی تعمیری کام نہیں ہو سکتا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے