کالم

ہیجان اور مقبول قیادت

جنوری 9, 2021 2 min

ہیجان اور مقبول قیادت

Reading Time: 2 minutes

ہمارا عمران خان سے اختلاف کیا ہے اور کیوں ہے؟ اگر اپ ذی شعور انسان ہیں اور آپ کا مشاہدہ اچھا ہے تو آپ اپنے معاشرے کو سمجھ لیتے ہیں، مثلاََ جب عمران خان یہ کہتا ہے کہ اس معاشرے میں میرٹ نہیں ہے تو آپ کو فوری طور پر علم ہوجاتا ہے کہ یہ درست بات کر رہا ہے، جب وہ کہتا ہے کہ یہاں انصاف نہیں ہے، امیر اور غریب کے لئے قوانین مختلف ہیں، یہاں کی اشرافیہ کمزوروں کا حق مار رہی ہے، انسانوں پر کم خرچ کیا جا رہا ہے، صحت اور تعلیم کا معیار نہایت گھٹیا ہے تو بھی آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تنقید درست ہے۔
گویا برفانی تودے کی جو چوٹی عمران خان دیکھ رہا ہے وہ تقریباً ہر ذی شعور کو نظر آرہی ہے۔

علامات دیکھنے کے بعد اگلا مرحلہ وجہ جاننے کا ہوتا ہے اور سو میں سے پچانوے لوگ اس مشقت میں پڑنا ہی نہیں چاہتے کہ ایسا ہے کیوں؟

کیا ہم ان تمام خرابیوں کی ذمہ داری چند مخصوص افراد یا مخصوص خاندانوں کے سر تھوپ کر مُکتی حاصل کرلیں؟ یہ بہت آسان عمل ہے کہ اپ سارے پروسیس سے اپنے آپ کو الگ کر کے یہ پگڑی کسی کے سر باندھیں ایک ولن تخلیق کریں اور اسے گالیاں دینا شروع کر دیں۔ یہ وہ موڑ ہے جہاں پر سطحی تجزیہ کرنے والے اور چیزوں کی اصل جاننے کے خواہشمند افراد کی راہیں جدا ہوجاتی ہیں، یہی وہ جگہ جہاں سے ہمارا عمران خان سے اختلاف شروع ہوجائے گا۔

جن مخصوص افراد یا خاندانوں کو عمران خان مجرم گردانتے ہیں دراصل وہ ہمارے معاشرے کے ہی نمائندے ہیں اور ان کا کردار بالکل ویسا ہی ہے جیسے پورے معاشرے کا ہے، گویا مسئلے کی جڑیں اس سے کہیں گہری ہیں جو بظاہر دکھائی دے رہی ہیں۔

جن لوگوں کو ملک سے باہر جانے کا اتفاق ہوا اور ان کی دلچسپی سماجی نظام کے مطالعے میں بھی تھی وہ بہت بہتر انداز میں اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ ایک مثالی معاشرہ ڈھونڈنا ناممکن ہے، ہر معاشرے ایک مخصوص طریقے سے ہی بہتر ہوا ہے اور اس کا آغاز انسانوں کی جبلی ضروریات کو حل کرنے کے بعد ہی شروع ہوا ہے یعنی انہوں نے بالترتیب بھوک سے آغاز کرنے کے بعد اپنے دیگر جبلی مسائل جیسے جنس وغیرہ کو سمجھا اور چینلائز کیا ہے۔

گویا اگر آپ ایم اے کرنے کے خواہشمند ہیں تو اس کا آغاز بہرحال پہلی جماعت سے ہی ہوگا۔
ہمارے معاشرے کا تقابل دیگر نسبتاً ترقی یافتہ معاشروں سے کرنا دراصل احساس محرومی اور احساس کمتری ہی پیدا کرے گا۔

آپ پورا سائیکل کھول بیٹھیں گے اور بند آپ سے ہوگا نہیں۔
ایولوشن یا ارتقاء ہی وہ راستہ ہے جس سے گذر کر ہم آگے بڑھ سکتے ہیں اور ارتقاء کے عمل میں ہیجان دراصل ارتقاء کے عمل کی توہین ہوتا ہے اور اسے مزید سست کرتا ہے۔
اس اڑھائی سال میں کیا نہیں ہوسکتا تھا؟ اگر ہم عمران خان کے واحد نعرے یعنی کرپشن کو بھی ایڈریس کرنا چاہتے تو کیا نہیں ہوسکتا تھا؟

آخر کو اسی ارتقائی عمل میں نیپرا، پیپرا رولز آئے ہیں، اسی میں پبلک اکاوئنٹس کمیٹیاں یا اکاوُنٹینٹ جنرل آئے ہیں، نیب قوانین بھی اسی عمل کا نتیجہ ہیں۔

سب جانتے ہیں کہ کرپشن کم کرنے کے لئے پلاسٹک کرنسی کا فروغ کتنا اہم ہے اور دنیا نے اس سے کتنے فوائد حاصل کئے ہیں لیکن عمران خان نے اس کے لئے کیا عملی قدم اٹھائے ہیں؟
بحیثت قوم ہمیں اس ہیجانی کیفیت سے باہر نکلنا ہوگا، عوام میں مقبول لوگ ہی اس ملک کو آگے لے جا سکتے ہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے