بدنام صحافت۔۔۔ بنام صحافت
Reading Time: 3 minutes”جانتے نہیں ہو ہمیں، ڈھائی لاکھ روپے کا کل تک بندوبست کرو ورنہ تمہارا برا حال کر دیں گے، ایس پی ، ڈی سی اور ایس ایچ او کا بھی حصہ ہے اس میں۔”
اگر آپ اسے سلطان راہی کی کسی پر تشدد فلم کا ڈائیلاگ سمجھ رہے ہیں تو یقینا یہ آپ کی معصومیت ہے کیونکہ یہ سب کچھ غنڈا نما نام نہاد صحافی حضرات ایک مساج سنٹر کی ویڈیو بنا کے مالکان کو دھمکاتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
ایسے واقعات روزانہ کی بنیاد پر رونما ہو رہے تھے لہذا ہم نے بھی اس کی تحقیق کا فیصلہ کیا کیونکہ لٹیرے کچھ چینلز کا نام بھی استعمال کر رہے تھے۔
مساج سنٹر چلانے والوں نے ڈکیت نما بھتہ خور صحافیوں کو پہلی قسط میں پچاس ہزار دینے کا فیصلہ کیا، اور رقم وصولی کے لیے ایف ٹین مرکز میں تشریف لائے ۔ کیونکہ معاملہ حساس نوعیت کا تھا اور اسلحہ کی موجودگی کی اطلاع پر ہم نے متعلقہ پولیس حکام کو بھی سارے کیس سے آگاہ کیا۔
خیر بد دلی سے تھانہ شالیمار کی پولیس پہنچی ، جب صحافی حضرات قریب پہنچے تو پولیس پتلی گلی سے چلتی بنی ، معاملہ اعلیٰ حکام کے نوٹس میں لایا اس کے باوجود محافظوں کا چال چلن رہزنوں کی وکالت کی روداد سنا رہا تھا۔
خیر مبینہ طور پولیس اور انتظامیہ کے اعلیٰ افسران کے حصے کا پرچار کرنے والے افراد دیدہ دلیری سے ایف ٹین مرکز مطلوبہ جگہ پر پہنچ گئے ، موقع پر رقم پکڑے شخص کو انہوں نے ہمارے سامنے اپنی گاڑی میں بٹھایا اور وہاں سے غائب ہو گئے۔
ہم لوگوں نے چند لمحے پولیس کا انتظار تو کیا لیکن بعد میں ان کا تعاقب شروع کر دیا تو مرکز کے دوسری طرف پیسے وصول کر کے وہ حضرات گاڑی میں جانے ہی والے تھے کہ ہمارے دوست یاسر ملک نے ان کی گاڑی کو روک لیا۔ پچاس ہزار روپے بر آمد ہو چکے تھے ، ملزمان کو ہم نے قابو کیا ہوا تھا۔
دلچسپ بات یہ تھی کہ وہ تو پکڑے گئے تاہم ان کی گرفتاری کے لیے آنے والی پولیس کو ڈھونڈنا اب ہمارا اگلا ہدف تھا، خیر ایک سپر سٹور کے سامنے محافظین سکون سے چاکلیٹ کے مزے لیتے پائے گئے۔
کمزور کے خلاف جھٹ پٹ ایکشن کرنے والی پولیس رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے لٹیروں کی تصاویر بنانے سے بھی لوگوں کو روک رہی تھی۔ پولیس کا یہ رویہ انتہایئ شرمناک تھا، ملزمان کو تمام تر ثبوتوں کے ہمراہ تھانہ شالیمار منتقل کیا گیا۔
پولیس کے اس رویئے سے زیادہ اس سارے مرحلے میں پریس کلب کا کردار انتہائی افسوس ناک رہا ، ہم نے فوری طور پر قدرے اچھی شہرت کے مالک صدر پریس کلب شکیل انجم کو بھی آگاہ کیا جس پر حکومتی وعدوں کی طرح ایکشن لینے کا وعدہ تا دم تحریر لولی پاپ ہی لگ رہا ہے ، حالانکہ انہیں متعلقہ لوگوں کی ممبر شپ فوری کینسل کرنی چاہیے تھی تاہم شاید وہ اپنے ووٹ کم نہیں کرنا چاہتے۔
دوستو یہ کوئی ایک واقعہ نہیں اس سے پہلے بھی ایسے گروہ تیل ایجنسیوں والوں سے لے کر شیشہ سنٹرز تک چلانے والوں سے ماہانہ بھتہ وصول کرتے ہیں۔شیشے سے لے کر مساج سنٹرز تک کی پشت پناہی میں 80 فیصد شہر کے مبینہ کرائم رپورٹرز ملوث ہیں۔
یہ سب سے پہلے غیر قانونی معاملات کی ویڈیوز بناتے ہیں اس کے بعد بجائے خبر دینے کے ان سنٹرز سے بھتے کی وصولی کی جاتی ہے بلکہ آج کل تو شہر میں ایسے غیر اخلاقی سنٹرز بنا کر صحافیوں کے حوالے کر دیئے جاتے ہیں۔
یقین جانیے پاکستان کی صحافت کو ایسی کالی بھیڑوں سے زیادہ کسی سے خطرہ نہیں ہو سکتا ، کل کے واقعہ نے پریس کلب ، پولیس ، انتطامیہ اور شہر کے نام نہاد کرائم رپورٹرز کو بری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔
انتظار فقط اتنا ہے کہ ٹوئٹر پر متحرک یہ ادارے ایسی سرگرمیوں پر کیا ایکشن لیتے ہیں۔
تحریر کا اختتام زرد صحافت کو بے نقاب کرتی ایک انگریزی کہاوت سے بہتر کچھ اور نہیں ہو سکتا:
“The pen has always been mightier than the sword but sadly in today’s journalism the ink is sponsored.”