بلتستان میں نیشنل پارک ضروری، لیکن کس قیمت پر؟
Reading Time: 5 minutesتحریر: عبدالجبارناصر
حصہ دوم
حکومت گلگت بلتستان نے 21 جنوری 2021ء کو ’’ننگاپربت نیشنل پارک ‘‘ کا نوٹیفیکشن بھی جاری کیا ہے ۔ نوٹیفکیشن کے مطابق اس پار ک میں ضلع استور کے مختلف علاقے روپل، تشنگ، ڈویاں، دشکن ، مشکن ، ہرچو گائوں، وادی رامہ ، عیدگاہ، ایرل گاہ، ضلع دیامر کے مختلف علاقے دیامر گاہ، بونر نالہ، گونر نالہ، فارم نالہ ، تتو گاہ اور فیری میڈوز شامل ہوں گے۔ حدود کا تعین کرتے ہوئے بتایاگیاہے کہ 1196 مربع کلومیٹر پر پھیلے ہوئے ’’ننگا پربت نیشنل پارک ‘‘ کی حدود شمال میں ننگاپربت ’’سی سی ایچ اے (Community Control Hunting Areas) داریل اور تانگیر وادیوں ‘‘، شمال مشرق میں دریائے سندھ، شمال مغرب میں وادی بونر ، جنوب میں وادی نیلم ، جنوب مشرق میں’’ زایپور سی سی ایچ اے (Community Control Hunting Areas)، مشرق میں دریائے استور اور مغرب میں ’’بونر گیچی سی سی ایچ اے (Community Control Hunting Areas)‘‘ تک ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق ’’ہمالین نیشنل پارک اور ننگا پربت نیشنل پارک‘‘ مجموعی طور پر ضلع استور کے کل رقبے کا تقریباً 70 فیصد ہے اور ایک لاکھ سے زائد آبادی والے چھوٹے بڑے گائوں شامل ہونگے ۔ ضلع استور کا تقریباً 30 فیصد رقبے کے 40 سے 50ہزار آبادی والے کچھ علاقے بچیں گے۔
شکوہ اور مجبوری !
کافی احباب کا شکوہ تھاکہ مضمون کے پہلے حصے میں ’’ننگاپربت نیشنل پارک ‘‘ کو کلی طور پر نظر انداز کیاگیا ، یہ شکوہ درست اور سر آنکھوں پر ، مگر مجبوری یہ تھی کہ کوشش کے باوجود ہمیں نوٹیفیکیشن نہیں ملا اور ایک پارک کا ذکر مفصل اور دوسرے کا ضمناً ہو تو یہ ناانصافی ،بلکہ بددیانتی ہوتی ، اس لیے نوٹیفیکیشن کی دستیابی تک مجبوراً زیر بحث نہیں لایا۔ صرف استور نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے چپے چپے کے ہم سب وارث اور محافظ ہیں ۔
بے سروپا حکومتی وضاحت !
امکان تھاکہ دونوں پارکوں کے یک طرفہ نوٹیفیکیشن کے اجراء اور عوامی احتجاج پر حکومت کی جانب سے تسلی بخش جواب آئے گا ، مگر 23جنوری 2021ء کووزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید خان کا جو بیان سامنے آیا ، وہ غیر ضروری بحث اور بے جا تنقید اور لا حاصل تسلیوں پر مشتمل تھا۔ 27 جنوری 2021ء کو گلگت میں وزیر اطلاعات و پلانگ فتح اللہ خان، وزیر خزانہ جاوید منوا، وزیر جنگلات، راجہ ذکریا مقپون اور وزیر قانون سید سہیل عباس ایڈوکیٹ اور دیگر نے مشترکہ پریس کانفرنس کی ۔ صوبائی وزراء نے یہ تو بتایا کہ ’’نیشنل پارک ‘‘بے انتہا فوائد ہیں، مگر یہ فوائد کس طرح کے ہیں یہ نہیں بتایا ،بلکہ گلگت بلتستان میں نیشنل پارکوں کی تاریخ بتادی اور ساتھ ہی گلگت بلتستان کو مسلہ کشمیر متاثر کیے بغیر ’’عبوری صوبہ ‘‘بنانے کی قرارداد کو گلگت بلتستان اسمبلی لانے کی بات کی ، جو در اصل نیشنل پارک ایشو سے توجہ ہٹانے کی ایک کوشش ہوسکتی ہے۔
صوبائی وزیر فتح اللہ خان کا کہنا تھاکہ خنجراب نیشنل پارک کے 45 سالہ فوائدکے بارے میں وہاں کے باسیوں سے جاکر پوچھیں ۔ ہم وزیر موصوف سے درخواست کرتے ہیں کہ کبھی تنہائی میں اہلیان گوجال اور میر آف ہنزہ سے آف دی ریکارڈ پوچھ لیں کہ ان کو کتنا فائدہ ملا ہے۔ کس نے، کب اور کس طرح دبائو ڈالا ، انہیں پارک کے بورڈ آف گورنرز میں شامل اور پھر مزید کیا ہوا۔ وزراء نے فارسٹ ایکٹ 1975ء اور فارسٹ ایکٹ 2019ء کے دو آرٹیکلز کا حوالہ دیا ، اے کاش وزراء صاحبان خود بھی بغور دونوں ایکٹ کا مطالعہ اور سمجھنے کی کوشش کرتے تو انہیں پوری بات سمجھ آتی کہ ’’نیشنل پارک‘‘ کے معنی اورمفہوم کیاہیں؟ وزراء صاحبان کو یہ بھی علم ہونا چاہئے کہ 1975ء سے 2021ء تک بہت کچھ بدل چکاہے۔ اب حکومت کو دو اور دو چار کی طرح صاف بات کرکے عوام کو مطمئن کرنا ہوگا۔
شخصی نہیں قانونی ضمانت!
گلگت بلتستان میں حکومت کے کچھ حامی اور رہنماء کبھی وزیراعظم عمران خان اور کبھی وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کی یقین دہانیوں کے دعوے کرتے ہیں ، جبکہ استور کے دوسرے منتخب رکن اسمبلی شمس الحق لون نیشنل پارکوں کے خلاف قانونی مزاحمت کو ’’سیاسی یتیموں اور بے روزگاروں‘‘ کا پروپیگنڈا قرار دے رہے ہیں، ان کا یہ رویہ افسوسناک ہے۔
غالباً 2005ء میں سابق آمر پرویز مشرف نے کالاباغ ڈیم کی حمایت کے لئے سندھ میں اپنے تمام حامیوں اور بااثر شخصیات کو گورنر ہائوس سندھ میں جمع کیا اور تقریر میں بار بار کالاباغ ڈیم کی حمایت کے حق میں مشترکہ قرار داد پاس کرنے کی بات کی تو لوگوں نے اپنے تحفظات پیش کئے ، جس پر مشرف نے کہاکہ ’’میں ضمانت دیتا ہوں کہ سندھ کا حق نہیں مارا جائے گا‘‘۔ اس موقع پر مسلم لیگ (ف) کے سربراہ اور حروں کے روحانی پیشوا سید شاہ مردان شاہ پیر صاحب پگار ؒ نے تاریخی جملہ فرمایاکہ ’’ صدر صاحب ہمیں شخصی نہیں آئینی ضمانت چاہئے ، آپ آج ہیں اور کل نہیں رہیں گے ‘‘ جس پر جواب ملا کہ ’’جلد قانونی ضمانت ملے گی ‘‘ مرحوم پیر صاحب نے فرمایا ’’ جب آئینی ضمانت ملے گی تو پھر بات کریں گے‘‘۔
اسی طرح آج گلگت بلتستان کے عوام کو بھی شخصی نہیں بلکہ قانونی ضمانت چاہئے اور اس کے لئے عوام سے تحریری معاہدہ ضروری ہے ، بصورت دیگر حکومت نوٹیفیکیشن کے ذریعے ’’قانونی قبضے ‘‘کے بعد اب ’’فیزیکل قبضے‘‘ کی کوشش کرے گی اور ایک دن سب کو بے دخل کردیا جائے گا۔
نوٹیفیکیشن اور بد نیتی !
حکومت گلگت بلتستان کے وزراء کی پریس کانفرنس کا بادی النظر میں یہ اظہار بھی تھاکہ ان کی نیک نیتی پر شک نہ کیا جائے ،مگر عوامی سوالات پر خاموشی اور نوٹیفیکیشن کے اجراء کی تاریخ میں رد و بدل اب یقینی بد نیتی محسوس ہورہی ہے ، کیونکہ غلط نوٹیفیکیشن کو بنیاد بناکر تحریک انصاف کے حامیوں کی ایک کثیر تعداد سابق حکمرانوں پر تبرا کر رہی ہے ۔ حکومت گلگت بلتستان کے محکمہ جنگلات و جنگلی حیات اور ماحولیات نے 21جنوری 2021ء کو ’’ننگاپربت نیشنل پارک ‘‘ اور ’’ ہمالین نیشنل پارک ‘‘ کے نوٹیفکیشن جاری کئے اور دونوں میں تاریخ 21 جنوری 2020ء درج کردی اور ابھی تک اکثر مقامات میں یہی نوٹیفیکیشن عام ہیں۔ بعد میں محکمے نے زبانی طور پر غلطی تسلیم کرتے ہوئے 21 جنوری 2021ء کے نوٹیفیکیشن بھی جاری کئے ۔ اصل بات یہ ہے کہ ملک میں 15 نیشنل پارک قائم کرنے کی اجازت وزیر اعظم عمران خان نے 2 جولائی 2020ء کو دی اور ان پارکوں میں سے گلگت بلتستان میں فوری طور پر دو پارک بنانے کی ہدایت کی گئی اور پھر ’’ننگاپربت نیشنل پارک‘‘ اور ’’ہمالین نیشنل پارک‘‘ کے لئے محکمہ جنگلات نے کام شروع کیا ، غالباً اگست سے دسمبر 2020ء تک ہوم ورک مکمل اور کچھ لوگوں سے مشاورت کی کوشش کی گئی ، عوام نے اپنے خدشات کا شدت سے اظہار کیا(ہمالین نیشنل پارک کی حدود میں شامل قمری ، منی مرگ ایک رہنماء کے محکمہ جنگلات میں جمع خط میں درج مطالبات میں پوزیشن بہت واضح ہے)اور پھر خاموشی چھائی رہی ۔ اچانک یکم دسمبر 2020ء کو وزیراعظم عمران خان نے گورنر ہائوس گلگت میں دونوں پارکوں کا افتتاح کیا ، لیکن نوٹیفکیشن کے اجراء تک حدود کے حوالے ہوا بھی لگنے نہیں دی ۔
استور گرینڈ جرگہ !
دونوں پارکوں کے قیام میں عوام کو مکمل لاعلم رکھنے ، عوام سے مشاورت اور مفاہمت کو کلی طور پر نظر اندازکرنے پر ضلع استور کے عوام سراپا احتجاج اور ’’استور گرینڈ جرگہ ‘‘ کے پلیٹ فارم پر جمع ہیں ۔ اس ضمن میں 28 جنوری 2021ء کو گلگت پریس کلب میں جرگے کے رہنما مولانا عبدالسمیع،انجنیئر شجاعت علی خان ، عبدالرحمان ثاقب ،ڈاکٹر مظفر ریلے، عباس موسوی ، مولانا عنایت اللہ میر ، قاسم شہزاد ایڈووکیٹ اور دیگر نے بہت بہتر انداز میں عوامی موقف پیش کیا ہے ۔ اعلان کیا ہے کہ جگلوٹ سے قمری منی مرگ تک حکومتی غاصبانہ سوچ کے خلاف بھرپور مہم چلائی جائے گی ۔ اس مرحلے میں قوم کے ہر فرد کو اپنے حق کے لے اٹھنا ہوگا۔
(جاری ہے)