بلتستان میں نیشنل پارک کے فوائد زیادہ یا نقصانات؟
Reading Time: 6 minutesتحریر: عبدالجبارناصر
حصہ سوم
نیشنل پارک کے فوائد و نقصان
حکومت نے 21 جنوری 2021ء کو گلگت بلتستان کے ضلع استور کے 1989 مربع کلومیٹر علاقے میں ’’ہمالین نیشنل پارک ‘‘ اور ضلع استور اور ضلع دیامر کے 1196 علاقے پر مشتمل ’’ ننگاپربت نیشنل پارک ‘‘کاے جب سے نوٹیفکیشن جاری کیا ہوا ، حمایت اور مخالفت میں ایک طوفان کھڑا ہے اور مقامی عوام شدید ازیت میں ہیں ۔ مخالفت کرنے والے نیشنل پارک کے قیام سے مقامی آبادی کے لئے نقصانات کی ایک لمبی فہرست پیش کرتے ہیں ، جبکہ حمایت کرنے والے بڑے بڑے فائدوں کا دعویٰ تو کرتے ہیں ،مگر یہ فوائد کس طرح ہونگے ،یہ بتانے سے قاصر ہیں ۔ یہاں پر حامی احباب اور حکومت سے درخواست ہے کہ وہ فوائد کو کھل کر بیان کریں ، تاکہ انتہائی سخت پریشان اور تذبزب کا شکار عوام کو نہ صرف تشفی ہو ، بلکہ انہیں فیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔
کیا ملازمتوں کی فراہمی متبادل ہے ؟
نیشنل پارک بالخصوص وفاق اور گلگت بلتستان کی حکومتی جماعت کے بعض حضرات ملازمتوں کی فراہمی کو متبادل مستقل حل قرار دیتے ہیں اور اس ضمن میں بعض دعوے بھی کئے جارہے ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق دونوں پارکوں میں جو علاقے شامل کئے گئے ہیں ، وہاں کی تقریباً ایک لاکھ افراد کی آبادی کلی اور 50 ہزار افراد جزوی متاثر ہونگے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا حکومت ہر خاندان کو متبادل روزگار کے طور پر ملازمت فراہم کرسکے گی ؟
چھٹی 2017ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں اوسطاً ایک خاندان 6 افراد پر مشتمل ہے اور اس حساب سے صرف کلی طور پر متاثر ہونے والے ایک لاکھ افراد کو مدنظر رکھتے ہیں تو یہ 16666 خاندان بنتے ہیں اور ہر خاندان کے ایک فردکوبھی ایک ملازمت بھی دی گئی تو یہ تعداد ’’16666‘‘ بنتی ہے ۔ کیا دونوں نیشنل پارکوں میں اتنی بڑی تعداد میں ملازمتوں کے مواقع ہیں ؟ کیا حکومت اتنی بڑی تعداد میں سرکاری ملازمتوں کی فراہمی کی پوزیشن میں ہے ؟ خنجراب نیشنل پارک کے متاثرین میں کتنی ملازمین تقسیم ہوئی ہیں حکومت بناسکتی ہے ؟ یہی سوال دیگر پارکوں کے متاثرین کے حوالے سے بھی ہے۔ خلاصہ یہی ہے کہ یہ ملازمتوں کی فراہمی والی بات صرف لوگوں کو نرم اور حکومتی فیصلے کو قبول کرنے کے لئے تیار کرنے کی ایک کوشش ہے۔
معاوضہ اورزمین کی اقسام
وفاقی حکومت کی ہدایت پر حکومت گلگت بلتستان نے جن علاقوں کو نیشنل پارکوں میں شامل کیا ہے ، ان کے متاثرین کے حوالے سے حکمران جماعت کے بعض احباب یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ بڑے پیمانے پر زمینوں کا معاوضہ دیا جائے گا۔ یہ دعویٰ درست ہے تو اس کی قانونی پوزیشن کو بھی دیکھنا ضروری ہے۔جو علاقے پارکوں شامل ہیں ان میں مقامی لوگوں کے تصرف میں مختلف اقسام کی زمینیں ہیں۔
(1)۔ انتقال شدہ زمین یعنی وہ زمین جو لوگوں کے ذاتی نام پر ہے ۔
(2)۔ شاملات زمین یعنی وہ زمین جو فرد کی انتقال شدہ زمین سے منسلک ہے اور وہ فرد یا خاندان فائدہ اٹھا رہاہے۔
(3)۔ گائوں کی مشترکہ زمین یعنی وہ زمین جو کسی فرد یا گائوں کے نام پر تو نہیں لیکن صدیوں سے مقامی گائوں کے تصرف میں ہے اور غیر اعلانیہ وہ زمین عملاً گائوں کی ملکیت سمجھی جاتی ہے اور روزانہ کے چراگاہ کے طور پر استعمال کیا جاتاہے، دوسرے گائوں مداخلت سے گریز کرتے ہیں ۔
(4)۔ چند گائوں یا علاقے کی مشترکہ چراگاہ ،جس کو نالہ جات بھی کہا جاتا ہے ، یہ وسیع رقبہ ہوتا ہے ۔
نوٹیفکیشن کے بعد زمینوں کی حیثیت
جنگلات، جنگلی حیات اور ماحولیات کو رپورٹ کرنے والے مختلف میڈیا رپورٹرز کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر نیشنل پارک کے قوائد و ضوابط ، پاکستانی فارسٹ قوانین کے مطابق ،جن علاقوں کو نیشنل پارک میں شامل کیاگیا ہے ، اب وہ قومی ورثہ بن چکے ہیں اور نوٹیفکیشن کے بعد دوسری ، تیسری اور چوتھی قسم کی زمینوں سے قانونی طور پر مقامی عوام کا حق عملاً ختم ہوچکا ہے اور حکومت اس کے بدلے میں ان کو معاوضہ دینے کی پابند نہیں ہے۔ پہلی قسم کی زمین (انتقال شدہ )بھی دو اقسام ہیں ۔ پہلی قسم جو جنگلات ، جنگلی حیات اور جنگلی نباتات والی زمین ۔ نیشنل پارک بننے کے بعد یہ زمین بھی عملاً حکومتی ملکیت ہوگئی ہے ، تاہم حکومت معاوضہ دے گی یا متبادل انتظام کرے گی وہ بھی اپنی شرائط پر۔ دوسری قسم کی وہ زمین ہے ،جو انتقال شدہ بھی ہے اور جنگلات ، جنگلی حیات اور جنگلی نباتات والے علاقے میں بھی نہیں ہے ، اس زمین کے حوالے سے مقامی عوام کے دعوے کو اہمیت حاصل ہوگی اور صرف اسی زمین پر اصل بات چیت ہوگی۔
چند گزارشات!
(1)۔ جن علاقوں میں نیشنل پارک بنائے جاتے ہیں ، ان میں جنگلات ، جنگلی حیات ، جنگلی نباتات اور ماحولی اور کو درپیش خطرات کو مد نظر رکھا جاتا ہے ۔ ضلع استور کے تقریباً 2500 مربع کلو میٹر اور ضلع دیامر کے تقریباً 600 مربع کلو میٹر علاقے میں مذکورہ خطرات میں سے سوائے جنگلات کے مزید کون کونسے خطرات ہیں ، جن سے بچنے یا تدارک کے لئے ان علاقوں کا انتخاب کیا گیا ہے ؟ جنگلات کو بچانے اور شجرکاری کے لئے کئی قوانین اور طریقے موجود ہیں ۔
(2)۔ نیشنل پارک کے قیام کے بعد یقیناً عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہوگا اور اس کے نتیجے میں لوگ ہجرت پر مجبور ہونگے یا ان کو بے دخل کیا جائے گا۔ گلگت بلتستان منقسم متنازع ریاست جموں و کشمیر کا قانونی اور آئینی حصہ ہے ۔ کیا تنازع کشمیر کے حل سے قبل حکومت ریاست کے قانونی باشندوں کو بے دخل یا ہجرت پر مجبور کرسکتی ہے اور اس کے منفی اثرات کا کسی کو اندازہ ہے ؟
(3)۔ کل کلاں پاکستان کی وفاقی حکومت ملک بھر کے نیشنل پارکوں کو صوبوں کی بجائے کی اپنے کنٹرول میں لیتی ہے تو پھر گلگت بلتستان کے ان پارکوں کی قانونی پوزیشن کیا ہوگی ؟
(4)۔ حکومت کے اس دعوے کو مان لیا جائے کہ مقامی آبادی کو زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا ہوگا اور بے دخل بھی نہیں کیا جائے گا، ایسے میں ’’نیشنل پارک ‘‘ کی حدود میں ترقیاتی کاموں مثلاً بڑے پیمانے پر کچی پکی سڑکوں کی تعمیر ، شونٹر ٹنل ، برزل ٹنل ، بجلی پیدا کرنے کے بڑے منصوبوں اور دیگر ترقیات کا کیا ممکن ہوں گے؟
(5)۔ نیشنل پارک کی حدود میں کل کلاں کوئی بڑا منصوبہ مثلاً وادی گریز (قمری ،منی مرگ ، کلشئی کو ماہرین ایک بڑے ڈیم کے لئے بہترین قرار دے رہے ہیں ) میں ڈیم بنایا جاتاہے تو پھر نیشنل پارک کی وجہ سے بے دخل کئے یا معاوضہ دیکر نکالے گئے یا ہجرت کرنے والوں کی قاقونی پوزیشن کیا ہوگی؟
(6)۔ متاثرین کو لاعلم رکھ کر ایک رات اچانک نوٹیفیکشن جاری کرنے کی مجبوری کیا تھی؟
(7)۔ نیشنل پارک کے نوٹیفکیشن سے پہلے عوام کو اعتماد میں کیوں نہیں لیاگیا؟
(8)۔ ہمالین نیشنل پارک کا تمام علاقہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید خان کے حلقہ انتخاب(جی بی ایل اے 13) میں آتا ہے ، اگر نیشنل پارک اتنا ہی زیادہ فائدہ مند ہے تو محترم وزیراعلیٰ صاحب نے اپنے آبائی گائوں’’رٹو‘‘ کو شامل کیوں نہیں کیا اور پارک کی حد’’رٹو‘‘تک کیوں رکھی ؟ اور کیا ہمالین نیشنل پارک کی حد بندی میں وزیر اعلیٰ صاحب کا کوئی کردار ہے یا عوام کی طرح وہ بھی لاعلم ہیں؟
(9)۔ ننگاپربت نیشنل پارک کے استور والے علاقے صوبائی وزیر شمس الحق لون کے حلقہ انتخاب (جی بی ایل اے 14) اور ضلع دیامر والے علاقے صوبائی وزیر حاجی شاہ بیگ کے حلقہ انتخاب (جی بی ایل اے 15)میں آتے ہیں ۔ کیا دونوں وزراء یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ ننگا پربت نیشنل پارک کی حد بندی میں وزرائے کرام کا کوئی کردار ہے یا عوام کی طرح ان کو بھی لاعلم رکھا گیا ؟
(10)۔ نیشنل پارک واقعی مقامی عوام کے بہتر مفاد ہے تو پھر وزیر اعلیٰ صاحب اور دونوں وزراء اپنے اپنے حلقہ انتخاب میں جاکر صاف شفاف طریقے سے لوگوں کو مطمئن کیوں نہیں کر رہے ہیں ؟ 3 سے 7 فٹ تک برف میں سراپا احتجاج کو قائل کیوں نہیں کر رہے ہیں؟ اس طرح اور کئی سوال نہ صرف جواب طلب بلکہ حکومتی کردار کو مشکوک بناتے ہیں ۔
عوام کے پاس واحد حل
موجودہ صورتحال میں متاثرہ علاقوں کے عوام کے پاس واحد حل یہی ہے کہ وہ پر امن قانونی جدوجہد اور احتجاج کو جاری رکھیں اور عوام کا ایک نکاتی مطالبہ یہ ہونا چاہئے کہ سب سے پہلے حکومت دونوں نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے کر ہماری آبائی قانونی جاگیر پر سے غیر قانونی کاغذی قبضہ ختم کرے اور پھر نیشنل پارک کے حوالے سے اصل اسٹیک ہولڈرز سے مذاکرات کرکے حل تلاش کرے ۔ اس کے لئے تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد ہر سطح پر آواز اٹھائیں۔