پاکستان کالم

گلگت بلتستان کے سابق وزیراعلیٰ کے خلاف کارروائی کیوں؟

مارچ 25, 2021 4 min

گلگت بلتستان کے سابق وزیراعلیٰ کے خلاف کارروائی کیوں؟

Reading Time: 4 minutes

تحریر: عبدالجبارناصر

اطلاعات کے مطابق قومی احساب بیورو (نیب) نے سابق وزیراعلیٰ اور مسلم لیگ(ن)گلگت بلتستان کے صدر حافظ حفیظ الرحمان کے خلاف انکوائری کی منظوری دے دی ہے اور کسی بھی وقت ان کی طلبی یا گرفتاری ہوسکتی ہے۔ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کو بطور وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان نے جائز ایشوز پر19 اگست 2018ء سے جون 2020ء تک ٹف ٹائم دیا، جس کا دکھ و رنج وزیراعظم عمران خان صاحب کو خود بھی ہے ، جبکہ یکم دسمبر 2020ء سے تحریک انصاف کی مبینہ صوبائی حکومت کو بھی حافظ حفیظ الرحمان سے ہی خطرہ محسوس ہورہا ہے۔

حافظ حفیظ الرحمان نے نومبر 2020ء کے انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے ایک مدلل وائٹ پیپر جاری کیا اور مسلم لیگ(ن)کے مقامی ذرائع کے مطابق وہ 100 دن ،200 دن ، 6 ماہ، سال اور اسی طرح مختلف اوقات میں حکومتی کارکردگی کے حوالے سے کارکردگی پر مبنی وائٹ پیپر جاری کرنے کی منصوبہ بندی کرچکے ہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ 100 دن کا وائٹ پیپر چند دن میں جاری ہوگا۔

حکومت اس بات سے بھی خائف ہے کہ وہ گلگت بلتستان کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے جو کھیل کھلنے جارہی ہے ، اس میں سابق وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان اور رکن اسمبلی اور معروف قوم پرست رہنماء نواز خان ناجی مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں ۔ ممکنہ مشکلات سے بچنے کےلئے ہر دو کے گرد گیرا تنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، تاکہ حکومتی کارکردگی اور گلگت بلتستان کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے کھیلے جانے والے کھیل کے رنگ میں بنگ نہ پڑجائے ۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ بعض مقامی بااثر شخصیات ’’ذاتی عناد‘‘یا ’’تعصبات ‘‘کی بنیاد پر حافظ حفیظ الرحمان سبق سکھانے ،بلکہ عبرت کا نشان بنانا چاہتی ہیں۔ حافظ حفیظ الرحمان کے خلاف انکوائری کے حوالے سے چند باتیں غور طلب ہیں۔

1۔ قومی احتساب بیورو (نیب ) کا گلگت بلتستان میں عمل دخل غیر قانونی عمل اور بے جا مداخلت ہے، یہ بات ہم نے میر غضنفر علی خان کے فرزند میر سلیم خان کی گرفتاری کے وقت بھی لکھی تھی اور اس سے قبل ڈی آئی جی حنیف صاحب اور دیگر کے کیس کے ضمن میں آج سے غالباً 16 سال قبل حوالوں کے ساتھ پورا مضمون لکھا، اسی طرح جب پیپلزپارٹی کے رہنماء اور سابق وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ کی انکوائری کی بات ہوئی تو ہمارا یہی موقف تھاکہ یہ کام مقامی ادارے کرسکتے ہیں ، نیب نہیں کرسکتا ہے اور آج بھی یہی موقف ہے ۔ نیب کا دائرہ کارو اختیار وفاق اور چار صوبوں تک ہے ،آزاد کشمیراور گلگت بلتستان کی قانونی پوزیشن صوبوں سے الگ تھلگ ہے۔

2۔ اطلاعات مل رہیں تھیں کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد ہی تحریک انصاف کے دوستوں نے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے درجنوں سرگرم رہنمائوں اور سیاسی مخالفین کی فہرستیں بنائی ہیں اور تحریک انصاف کے ہر حامی و متحرک نے اپنے سیاسی مخالفین کے نام انتقامی کارروائی لئے فراہم کردئے ہیں ۔

3۔ اس ساری صورتحال کا وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید خان صاحب کو کتنا علم ہے یا نہیں یا انکی مرضی و منشا سے ہورہا ہے، اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے، مگر یہ طے ہے کہ یہ منصوبہ بندی ہورہی تھی اور حافظ حفیظ الرحمان کے خلاف انکوائری بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

4۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید خان صاحب کے خاندان کا 1960ء سے گلگت بلتستان بالخصوص استور کی سیاست میں اہم کردار رہا ہے، ان کے والد جسٹس (ر) خورشید خان ، تایا حاجی عنایت خان مرحوم اور تایازاد صادق ایڈووکیٹ سیاسی طور پر اس عرصے میں متحرک رہے ہیں ۔ اس لئے وزیر اعلی صاحب کو چند اوباش اور نو دولتیوں کی خواہش پر وہ حرکت نہیں کرنی چاہیے، جو عمران خان ملک میں کرچکے ہیں اور آج ملک ہر طرف سے مشکلات سے دوچار ہے۔

5۔ وزیر اعظم عمران خان اور انکی جماعت تحریک انصاف کا ماضی اور نہ کوئی سیاسی مستقبل ہے ، جبکہ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کے آبا بھی سیاست کرتے رہے ہیں اور امید ہے کہ مستقبل میں بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا، ایسی حرکت نہیں کرنی چاہئے ، جس کی وجہ سے مستقبل میں تھو تھو ہو۔

6۔ اس طرح کی حرکات کا نتیجہ سوائے ذلت و رسوائی ، بد نامی ، خلفشار ، تقسیم در تقسیم ، بے مخالفتوں ، وقت اور توانائیوں کی بربادی کے کچھ نہیں ہے ۔ یہ بھی کہ جسٹس رانا شمیم کا عمل اور اس کے انجام بد پر بھی غورکریں۔

7۔ جن لوگوں کی یہ خواہش یا مطالبہ ہے کہ حافظ حفیظ الرحمان کو سیاسی انتقال کا نشانہ بنائو ان کو یہ علم ہونا چاہئے کہ حافظ حفیظ الرحمان اور نواز خان ناجی فی زمانہ گلگت بلتستان کی سیاسی شناخت اور شعور ہیں،انتقامی طور پر ان پر ہاتھ ڈالتے ہوئے ہزار بار غور کریں۔

8۔ اگر حافظ حفیظ الرحمان یا سید مہدی شاہ یا کسی اور با اختیار نہیں واقعی کوئی غلط کام کیا ہے تو گلگت بلتستان کے اپنے ادارے موجود ہیں ،ان سے تحقیقات کروائیں اور جرم ثابت ہو تو عدالتیں سزا دیں۔

9۔وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید خان کو گالی اور گولی بریگیڈ کے مشوروں پر عمل سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس لئے کہ اقتدار نے ہمیشہ نہیں رہنا ہے اور انکی سیاست کا ابھی آغاز ہی ہوا ہے۔ اس لئے اس حساس خطے میں سیاسی انتقام کی بنیاد نہ ڈالیں۔ فصلی بٹیروں، اوباش اور نو دولتیوں کا کل کوئی اور ٹھکانہ ہوگا اور سارا گناہ ثواب ان کے کھاتے میں ہوگا۔

10۔ گلگت بلتستان ایک انتہائی حساس خطہ ہے ، پاکستان والی پکڑ دھکڑ کی سیاست اور انتقام یہاں کام نہیں آئے گا۔ اپنی کارکردگی اور عملی کردار سے اپنے آپ کو ناقابل تسخیر بنائیں ۔ حافظ حفیظ الرحمان کے 5 سال آپ کے لئے چیلنج ہیں ۔ انہوں نے 5 سال میں کام کرکے دکھایا ہے۔

11۔ اگر کسی کی یہ خواہش ہے کہ نیب انکوائری یا طلبی یا گرفتاری کے بعد حافظ حفیظ الرحمان گردن جھکاکر خاموش رہے گا یا سر تسلیم خم کرے گا ، ان کو علم ہونا چاہئے کہ وہ ایک حادثاتی یا فضائی یا اچانک سیاسی کارکن نہیں ، بلکہ ان کی سیاسی تربیت مسجد کی چٹائیوں پر ایسی جماعت میں ہوئی ہے ، جس کا حقیقی تربیت یافتہ کارکن کٹ مرتو سکتا ہے ، مگر ظلم و جبر کے سامنے جھک نہیں سکتا ہے ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے