اے پی ایس کیس: سپریم کورٹ میں وزیراعظم نے کیا کہا؟
Reading Time: 3 minutesپاکستان کی سپریم کورٹ میں پیش ہو کر وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک میںکوئی مقدس گائے نہیں، عدالت حکم کرے حکومت کارروائی کرے گی.
بدھ کو سپریم کورٹ نے پشاور کے آرمی پبلک سکول میں طلبہ کے قتل عام کے از خود نوٹس کیس میں وزیراعظم عمران خان کو عدالت طلب کیا.
سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ وزیراعظم سانحہ اے پی ایس میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین سے ملاقات کریں اور ان کا مؤقف سن کر مناسب کارروائی کریں اور چارہفتے کے اندر اپنی دستخط شدہ رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں.
وزیراعظم عمران خان سے چیف جسٹس نے پوچھا کہ ریاست نے بچوں کے والدین کو انصاف دلانے کے لیے کیا کیا؟
چیف جسٹس نے پوچھا کہ ریاست نے بچوں کے والدین کو انصاف دلانے کے لیے کیا کیا؟ آخری حکمنامے میں نام دیے تھے کیا کارروائی کی گئی؟
وزیراعظم عمران خان نے جواب دیا کہ میں تو اس وقت حکومت میں نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اب تو آپ اقتدار میں ہیں، مجرموں کو کٹہرے میں لانے کے لیے آپ نے کیا کیا؟
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق آپ تو ان لوگوں سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ مجھے بات کرنے کا موقع دیں میں ایک ایک کر کے وضاحت کرتا ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں آپ کے پالیسی فیصلوں سے کوئی سروکار نہیں، ہم یہ پوچھ رہے ہیں کہ اتنے سال گزرنے کے بعد بھی مجرموں کا سراغ کیوں نہ لگایا جا سکا؟
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ وزیراعظم صاحب 2014 میں واقع پیش آیا اور سات سال گزر گئے، متاثرہ والدین چاہتے ہیں کہ اس وقت کے اعلی حکام کے خلاف کاروائی ہو۔
عمران خان نے کہا کہ جب واقع ہوا خیبرپختونخوا میں ہماری حکومت تھی، میں سانحہ کی شام فوری طور پر پشاور پہنچا۔
عمران خان نے بتایا کہ ہمارا اسامہ اور افغانستان سے لینا دین انہیں تھا ، سانحہ کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا ، دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی ، ہر روز خود کش حملے ہو رہے تھے.
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ آپ ہمارے وزیراعظم ہیں ،حترام کرتے ہیں .
قبل ازیں سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا سابق آرمی چیف اور دیگر ذمہ داران کے خلاف مقدمہ درج ہوا؟
چیف جسٹس گلزار احمد نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا وزیراعظم نے عدالتی حکم پڑھا ہے؟ جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ وزیراعظم کو عدالتی حکم نہیں بھیجا گیا تھا۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیراعظم کو عدالتی حکم سے آگاہ کروں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب! یہ سنجیدگی کا عالم ہے؟ چیف جسٹس
وزیراعظم کو بلائیں ان سے خود بات کریں گے، ایسے نہیں چلے گا۔
چیف جسٹس کے سوال پر کہ کیا سابق آرمی چیف اور دیگر ذمہ داران کے خلاف مقدمہ درج ہوا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سابق آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف انکوائری رپورٹ میں کوئی فائنڈنگ نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں اتنا بڑا انٹیلی جنس سسٹم ہے، اربوں روپے انٹیلی جنس پر خرچ ہوتے، دعویٰ بھی ہے کہ ہم دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی ہیں، اپنے لوگوں کے تحفظ کی بات آئے تو انٹیلی جنس کہاں چلی جاتی ہے؟
بدھ کو مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا بھی تذکرہ ہوا۔ جسٹس قاضی امین نے پوچھا کہ اطلاعات ہیں کہ ریاست کسی گروہ سے مذاکرات کر رہی ہے، کیا اصل ملزمان تک پہنچنا اور پکڑنا ریاست کا کام نہیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ بچوں کو سکولوں میں مرنے کے لیے نہیں چھوڑ سکتے، چیف جسٹس
چوکیدار اور سپاہیوں کے خلاف کارروائی کی گئی، اصل میں تو کارروائی اوپر سے شروع ہونی چاہیے تھی، اوپر والے تنخواہیں اور مراعات لے کر چلتے بنے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ ممکن نہیں کہ دہشتگردوں کو اندر سے سپورٹ نہ ملی ہو۔
عدالت نے سماعت ایک ماہ کے لئے ملتوی کر دی.