جج اور پیر کی صلح
Reading Time: 2 minutesراولپنڈی کے مشہور پیر نقیب الرحمان نے اپنے بیٹے کی بدمعاشی پر سپریم کورٹ کے جج سے معافی مانگ لی اور اس سے عوام کو آگاہ کرنے کیلئے ملک کے بڑے اخبارات میں چوتھائی صفحے کے اشتہارات شائع کیے ہیں جن پر ایک محتاط اندازے کے مطابق تیس لاکھ روپے خرچ کیے ہیں۔ اخبار میں شائع اشتہارات میں پیرنقیب الرحمان کی جانب سے معافی نامے کے علاوہ دو خیراتی اداروں کو پانچ پانچ لاکھ روپے بطورہرجانہ دینے کی رسیدیں بھی شائع کی گئی ہیں۔ واقعات کے مطابق جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب پیر کے بیٹے حسان نے سپریم کورٹ کے جج سردار طارق مسعود کے اہل خانہ کو لاہور سے اسلام آباد آتے ہوئے موٹروے پر ہراساں کیا اوران کی گاڑی کو ٹکر مارنے کی کوشش کی۔ جج کی درخواست پر پولیس نے ضلع حافظ آباد میں انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا اور اس سے پہلے کہ پیر صاحب حکومت میں موجود اپنے رابطے استعمال کرتے حسان کو عدالت نے بیس روز کیلئے پولیس ریمانڈ پر بھیج دیا۔ اٹھائیس مئی کے بعد سے پیر نقیب الرحمان نے فوری طور پر مسلم لیگ ن اور دیگر پارٹیوں میں موجود اپنے مریدوں کے ذریعے سپریم کورٹ کے جج سے رابطے شروع کیے اور اس کیلئے اکتیس مئی کو ان کی جسٹس سردار طارق مسعود سے ان کے چیمبر میں ملاقات بھی ہوئی۔ذرائع کے مطابق دو جون کو پیر نقیب الرحمان کی جانب سے قومی اخبارات میں شائع ہونے والے اشتہارات اسی ملاقات کا نتیجہ ہیں جس میں معافی کی شرائط طے ہوئی تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیر نقیب الرحمان کے اشتہار میں ایدھی فاﺅنڈیشن اور انجمن فیض الاسلام کو دیے جانے والے پانچ پانچ کے عطیے کو ہرجانہ لکھا گیاہے۔واضح رہے کہ پیر کے مذکورہ بیٹے حسان کی گزشتہ برس اسلام آباد کے پانچ ستارہ ہوٹل میں انتہائی پرتعیش دعوت ولیمہ دی گئی تھی اور شادی کی تقریب میں ڈالرز نچھاور کرنے کی ویڈیوز سوشل میڈیاپر وائرل ہوئی تھیں۔ ذرائع کا دعوی ہے کہ اس شادی پر پانچ کروڑ سے زائد کی رقم خرچ کی گئی تھی جو پیر کے مریدوں نے نذرانے کی صورت میں عطیہ کی تھی۔دوسری طرف قانون دانوں سے جب یہ پوچھا گیاکہ کیا انسداد دہشت گردی کی دفعہ سات لگنے کے بعد فریقین کی صلح پر معاملہ ختم ہوسکتاہے تو جواب میں کہا گیاکہ انسداد دہشت گردی کی دفعہ میں ریاست مدعی بن جاتی ہے اس لیے صلح کی بنیاد پر مقدمہ ختم نہیں ہوسکتا، اس کی واضح مثال گزشتہ سال مسلم لیگ ان کے رکن قومی اسمبلی چودھری عابدرضا ہیں جن کے خلاف سپریم کورٹ نے انسداد دہشت گردی کی دفعہ لگنے پر دوبارہ مقدمہ کھولنے کا حکم دیاتھا۔
عام لوگوں نے بھی جج اور پیر کے درمیان صلح کے اشتہار پر ردعمل ظاہر کیاہے۔ یہ سوال بھی پوچھا جارہے کہ کیا یہ واقعہ جج کی بجائے کسی عام شہری کے ساتھ پیش آتا تو پولیس اسی طرح پھرتی دکھاتے ہوئے بدمعاش فرزند کو گرفتار کرکے کارروائی کرتی؟۔ اور کیا اگر پیر کی بجائے کسی عام شہری کی گاڑی غلطی سے بھی جج کے اہل خانہ کو ہراساں کرتی تو جج اسی طرح معاف کردیتے جیسے پیر کے بیٹے کو انسداد دہشت گردی کے مقدمے میں معاف کردیاہے؟۔ کیا جج اس طرح کے مقدمے میں عام شہری کوبھی اپنے چیمبر تک رسائی دیں گے؟۔