حمزہ شہباز پیر تک بطور ٹرسٹی وزیراعلی کام کریں گے:سپریم کورٹ
Reading Time: 4 minutesپاکستان میں وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے معاملے پر پرویز الٰہی کی درخواست پر سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ حمزہ شہباز پیر تک بطور ٹرسٹی وزیر اعلیٰ کام کریں گے۔خلاف میرٹ تقرریاں کالعدم قرار دے دیں گے۔
ہفتے کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے معاملے پر پرویز الٰہی کی درخواست پر سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں سماعت کی۔
عدالت نے ڈپٹی اسپیکر کے وکیل عرفان قادر ایڈووکیٹ سے استفسار کیا کہ آپ ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ کا دفاع کس بنیاد پر کر رہے ہیں؟ جس پر انہوں نےکہا کہ ہم الیکشن کمیشن کے فیصلےکی بنیاد پر دفاع کر رہے ہیں، سپریم کورٹ نےفیصلےمیں کہا تھا کہ منحرف اراکین کے ووٹ شمارنہیں ہوں گے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم 17 مئی کے فیصلے پر نظر ثانی نہیں کریں گے، ہمارے پاس 17 مئی والا آرڈر ابھی یہاں چیلنج نہیں ہوا ہے، ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ آرڈر کی آڑ لیکر ووٹ شمار نہیں کیے، وہ حصہ بتائیں کہاں ہے؟ آپ بڑے سینیئر وکیل ہیں آپ کو پتہ ہوگا اسپیکر نے فیصلہ کہاں سے اخذ کیا؟
عرفان قادر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ میں صرف 2گھنٹے پراناہوں،ابھی عدالت کو تمام تفصیلات سےآگاہ کرتا ہوں،میں عدالت کی معاونت کرتا ہوں پہلے کچھ حقائق بتا دوں۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ ہم بھی 2 گھنٹے پرانے ہی ہیں آپ ہمیں آرڈر کا متعلقہ حصہ پڑھ کر سنائیں۔
اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے خود ہی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پڑھ دی اور کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے فیصلےکے جس پیرا نمبر 3 کا حوالہ دیا وہ پڑھ دیں۔ عرفان قادرایڈووکیٹ نے کہا کہ آرٹیکل 3 ون اے کے تحت منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہیں ہوں گے یہ عدالت کی تحقیق تھی نا ؟ جسٹس اعجاز الاحسن نےکہا کہ یہ عدالت کا فیصلہ ہے، عدالت کی تحقیق نہیں ہے۔
عرفان قادر ایڈووکیٹ نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکرنے سپریم کورٹ کے فیصلےکی روشنی میں ووٹ شمارنہ کرنا درست سمجھا، ڈپٹی اسپیکر کے پاس 2 چوائسسز تھیں، یا تو کہتے ووٹ شمار نہیں ہوں گے یا ووٹ شمار ہوگا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کہا تھاپارلیمنٹری پارٹی کی ہدایت کے خلاف ووٹ شمار نہیں ہوگا، ڈپٹی اسپیکر نے پیرا 3 پر انحصار کرکے کیا سمجھا ہے؟ عرفان قادر ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ ڈپٹی اسپیکر سمجھے پارٹی سربراہ ہی پارلیمنٹری پارٹی کی سربراہی بھی کرتے ہیں۔
چیف جسٹس نےکہا کہ اگر بالفرض ڈپٹی اسپیکر غلط سمجھے تو نتائج کیا ہوں گے؟ عرفان قادر ایڈووکیٹ نےکہا کہ میں آپ سےگھبراتا بڑا ہوں ایسا تسلیم کرنے والا بیان نہیں دے سکتا، بادی النظرمیں بدقسمتی،خوش قسمتی سےمیری رائے بھی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے ساتھ ہے۔
عدالت نےکہا کہ آپ سطحی طورپربتائیں ڈپٹی اسپیکر نے فیصلہ غلط سمجھا تو آگے کیا ہوگا؟ عرفان قادر ایڈووکیٹ نےکہا کہ حقائق پر کوئی تنازع نہیں ہے، ابھی مجھے ڈپٹی اسپیکر کی طرف سےجواب بھی جمع کرانا ہے، اگر عدالت کہے تو ڈپٹی اسپیکر بامقصد بیان عدالت میں پیش کردیں گے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسمبلی سے کوئی ریکارڈ پیش ہوا ہے؟ اس پر عرفان قادر نے کہا کہ میرے علم میں نہیں کہ ریکارڈ آیا ہےکہ نہیں، آپ کو ریکارڈ سے کیا مخصوص چیز دیکھنی ہے؟
چیف جسٹس نےکہا کہ ہم دیکھنا چاہ رہے ہیں اسپیکر کے ہاتھ میں چٹھی تھی وہ دکھائیں، بادی النظر میں حمزہ شہباز کا وزارت اعلیٰ کا عہدہ گہرے خطرے میں ہے۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو کمرہ عدالت وکلاء اور دیگر افراد سے کھچا کھچ بھر گیا جس کے باعث دھکم پیل سے دروازے کے شیشے ٹوٹ گئے، بعد ازاں چیف جسٹس نے ویڈیو لنک کے ذریعے سماعت شروع کی۔
اس سے قبل سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کو ذاتی طور پر سننا چاہتے ہیں، وہ اپنے ساتھ الیکشن کا تمام ریکارڈ بھی لے کر آئیں، ڈپٹی اسپیکرآکر اپنے مؤقف کا دفاع کریں اور بتائیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پریشان نہ ہوں یہ صرف ایک قانونی سوال ہے، یادرکھیں ایسے معاملات ناتجربہ کاری سے پیش آتے ہیں، یہ معاملہ تشریح سے زیادہ سمجھنےکاہے۔
قبل ازیں پاکستان کی سپریم کورٹ نے پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کی ق لیگ کے دس ووٹ مسترد کرنے کی رولنگ کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست قابل سماعت قرار دے دی ہے۔
عدالت نے دوپہر دو بجے ڈپٹی سپیکر کو ریکارڈ سمیت طلب کر لیا ہے۔
عدالت نے اٹارنی جنرل پاکستان کو معاونت کے لیے طلب کیا۔
سنیچر کو لاہور رجسٹری میں ابتدائی سماعت کے بعد عدالت نے تمام فریقین کو نوٹسز جاری کیے۔
سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی جس میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل تھے۔
سماعت کے آغاز پر تحریک انصاف کے بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ روز وزیر اعلی کا انتخاب ہوا جس میں حمزہ شہباز نے 179 جبکہ پرویز الٰہی نے 186ووٹ حاصل کیے۔
بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ ڈپٹی سپیکر نے ق لیگ کے دس ووٹ مسترد کیے۔
بیرسٹر علی ظفر کے مطابق ڈپٹی اسپیکر نے چوہدری شجاعت حسین کے مبینہ خط کو بنیاد بنا کر ق لیگ کے ووٹ مسترد کیے.
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جمہوری روایات یہی ہیں کہ پارلیمانی پارٹی طے کرتی ہے کہ کس کو سپورٹ کرنا ہے. پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کی ڈائریکشن کی خلاف ورزی پر رپورٹ کرسکتا ہے.
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کی روح کے مطابق عمل ہونا چاہیے، حمزہ شہباز کا حلف ہوچکا ہے مگر اس سے کچھ نہیں ہوتا.