قوم مزید تقسیم ہوگئی
Reading Time: 4 minutesنواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے معزولی کے بعداسلام آباد سے لاہور بذریعہ جی ٹی روڈ روانگی کے بارے میں میرے تمام تر خدشات غلط ثابت ہوئے۔ انتہائی قابل اعتبار ذرائع سے خفیہ ایجنسیوں نے ان کے سفر کے دوران دہشت گردی کے امکانات کا جائزہ لیا۔ ان تک یہ معلومات متواتر پہنچائی گئیں۔ نواز شریف مگر ٹس سے مس نہ ہوئے۔ جی ٹی روڈ کے ذریعے ہی سفر کرنے پر بضد رہے۔
یہ کالم لکھتے وقت ”میرے منہ میں خاک“ کی بارہا فریاد کرتے ہوئے بھی میں ان کے لاہور تک سفر کے دوران دہشت گردی کے امکانات کو رد نہیں کرپارہا ہوں۔ شاید انہیں موٹروے کا راستہ ہی اختیار کرنا چاہیے تھا۔ سیاست مگر بہت ظالم کھیل ہے۔ نواز شریف کو ان کے مخالفین نے تین برسوں تک پھیلی سازشوں اور کاوشوں کے بعد دیوار سے لگادیا ہے۔
روزانہ کی بنیاد پر سماعت کے ہیجان خیز ہفتوں کے بعد انہیں وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لئے نااہل قرار دے دیا گیا۔ سپریم کورٹ کو ان کی نااہلی کے لئے قائل کرنے کے لئے ریاست کے 6اداروں کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی نے 60دنوں تک مسلسل کام کیا۔ ان کی ذات اور بچوں کے بارے میں مبینہ طورپر جو معلومات جمع ہوئیں انہیں بہت سخت اور تذلیل آمیز زبان کے ساتھ عدالت کے روبرو پیش کیا گیا۔ پانامہ ”اقامہ“ میں تبدیل ہوکر ایک تکلیف دہ طعنہ بن گیا۔
معاملہ مگر نواز شریف کی نااہلی پر ہی ختم نہیں ہوا۔ آئندہ 6ماہ کے دوران اب سپریم کورٹ کے ایک عزت مآب جج کی نگرانی میں JITکی جمع کردہ معلومات کی بنا پر نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف مقدمات چلائے جائیں گے۔ JITکے جمع کئے ثبوت عدالتوں کو ٹھوس اور ناقابلِ دفاع نظر آئے تو سابق وزیراعظم اپنی بقیہ عمر جیل میں گزارنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ ان کے بچوں کو بھی طویل برسوں تک اس اذیت سے گزرنا ہوگا۔
پاکستان کی وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر تیسری بار پہنچ کر نواز شریف کی ایسی ذلت آمیز معزولی یقینا ایک تکلیف دہ عمل ہے۔ اگر وہ دیانت داری کے ساتھ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں زیادتی ہوئی ہے تو بطور سیاست دان انہیں پورا حق ہے کہ اپنی فریاد لے کر عوام کی عدالت میں جائیں۔ اندھی نفرت اور عقیدتوں میں تقسیم ہوئی عوامی عدالت میں اگرچہ صرف ان کے روایتی حامی ہی انہیں معصوم اور بے گناہ قرار دیں گے۔ فرض کیا ہمارے عوام کی بے تحاشہ اکثریت بھی اگر انہیں ”مظلوم“ ٹھہرادے تو ٹھوس انداز میں نواز شریف اس کا کوئی فائدہ اٹھا نہیں پائیں گے۔
سپریم کورٹ اس ملک کا اعلیٰ ترین عدالتی فورم ہے۔ اس کے فیصلوں کے خلاف اپیل کی گنجائش ہی نہیں اور اس فورم نے نواز شریف کو صادق اور امین کے معیار پر پورا نہ اترنے کے ”جرم“ میں وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کردیا ہے۔ اب اسی عدالت کے کسی اور فیصلے کے ذریعے ان کی اس منصب پر بحالی ناممکن ہے۔ اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کے مخالف ہی نہیں کئی پرجوش حامی بھی دبے لفظوں میں یہ اعتراف کرتے پائے گئے ہیں کہ وزارتِ عظمیٰ سے ذلت آمیز فراغت کے بعد نواز شریف کا بذریعہ جی ٹی روڈ سفر رائیگاں کا سفر ہوگا۔ اس سفر کو ہماری ریاست کے دائمی ادارے اور عدالتیں اپنی توہین ٹھہراکر مزید اشتعال میں بھی آسکتے ہیں۔ نواز شریف کے لئے شاید زیادہ بہتر یہی ہوتا کہ وہ ”نیویں نیویں“ ہوکر اپنے خلاف قائم ہونے والے مقدمات کے قانونی دفاع پر توجہ دیتے ہوئے اپنی ذات اور بچوں کے لئے آسانیاں تلاش کرتے۔
نواز شریف کی سطح کے سیاست دانوں کے ساتھ مگر Legacyوالا معاملہ وہ ڈرامائی ماحول پیدا کردیتا ہے جو شیکسپیئر کے کئی شہرئہ آفاق ڈراموں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹانے کے بعد ان کے خلاف بھی قتل کا ایک مقدمہ بنایا گیا تھا۔ بھٹو صاحب نے اس مقدمے کا انتہائی جی داری سے سامنا کیا۔ تارا مسیح کے ہاتھوں اپنی پھانسی سے مگر بچ نہیں پائے۔ اس پھانسی کے باوجود ان کے ساتھ ہوئے سلوک پر فیض کا وہ شعر صادق رہا جو مقتل میں دھج سے جانے والے کی شان کے سلامت رہنے کا دعوے دار ہے۔
بھٹو کے بدترین سیاسی مخالفین بھی اب ان کی پھانسی کو ”عدالتی قتل“ قرار دیتے ہیں۔ ان کے خلاف لکھے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کو ایک قابلِ قدر نظیر کا رُتبہ بھی نہیں ملا۔ نواز شریف بھی وزارتِ عظمیٰ سے فراغت کے بعد اپنی ذات اور بچوں کے لئے شاید ویسا ہی مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کہنا اگرچہ بہت قبل از وقت ہوگا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے یا ناکام۔
میری دانست میں نواز شریف کا بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ بھٹو کے مقابلے میں ان کا عوام کی عدالت کے روبرو Case کافی پیچیدہ ہے۔ بھٹو صاحب کو فوجی بغاوت کے ذریعے ان کے منصب سے ہٹایا گیا تھا۔ انہیں اقتدار سے رخصت کرنے کے بعد ریاستی طاقت کے حامل تمام اداروں نے باہم مل کر انتہائی منتقمانہ انداز میں انہیں ”عبرت کا نشان“ بنایا تھا۔
نواز شریف صاحب کے خلاف پانامہ دستاویزات کے حوالے سے جو کیس چلا اس کی سماعت کے دوران وہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر براجمان رہے۔
ان کے وکلاءکو دفاع کے بھرپور مواقع دیئے گئے۔ JIT کے ضمن میں پاکستان کے تیسری بار منتخب ہوئے وزیر اعظم کی حکومت البتہ قطعاََ بے بس نظر آئی۔ایک حوالے سے یہ بے بسی ہمارے لئے ”تاریخی“ اور دُنیا کے لئے ”مثالی“ ثابت ہوسکتی تھی۔ نواز شریف کے خلاف چلائے مقدمے کے ذریعے یہ ثابت کیا جاسکتا تھا کہ پاکستان میں کڑے احتساب کا ایک بھرپور نظام قائم ہوچکا ہے جو ملکی سیاست پر 30برسوں سے چھائے ایک طاقتور ترین خاندان کو بھی نہیں بخشتا۔ اندھی نفرتوں اور عقیدتوں میں تقسیم ہوئے آج کے پاکستان میں لیکن یہ پیغام اجاگر نہیں ہوپایا ہے۔ ہمارے ریاستی اداروں کا رویہ اس کا حتمی ذمہ دار ہے۔ تیر مگر اب کمان سے نکل چکا ہے۔نواز شریف اس کا نشانہ بنے ہیں۔ہماری قوم ان کی ذلت آمیز نااہلی کے بعد مزید تقسیم ہوگئی ہے۔ اب محض اس تقسیم کے نتائج ہیں جو ہم سب کو اجتماعی طورپر بھگتنا ہیں۔ ان سے مفر ممکن ہی نہیں۔
بشکریہ نوائے وقت