افغانستان میں پاکستان دشمنی کی بنیاداور حقیقت
Reading Time: 8 minutesجمعہ خان صوفی
تاریخ کی نہ صرف غلط تفسیروتوجیح بلکہ تاریخ کی سرے سے خاص مقصد کی خاطرتخلیق پس ماندہ اقوام کے لئے خطرناک عواقب کا حامل ہوتی ہے۔ پاکستان کے خلاف افغانوں/ پختونوں کی نفرت اسی مسخ شدہ تاریخ کا شاخسانہ ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سکولوں اور کالجوں میں پاکستان سٹڈیز مضمون نے ہمارے نوجوانوں کو تاریخ سے لاعلم کر دیا ہے جس نے حالات اورگھمبیر بنادیےہیں اورپختونوں کے ایک حصے کوغلط افغان بیانیہ کے زیراثرلاکھڑا کیاہے جسے نام نہاد پشتون قوم پرست بھی ہوا دیتے رہے ہیں۔
– [ ] افغانستان میں معاملہ بالکل برعکس ہے جہاں پر تاریخ کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے ۔ لیکن وہاں کی تاریخ اس قدر مسخ شدہ ہے کہ جس نے خود افغانستان کے اندرمختلف نسلی اقلیتوں کے ساتھ اور پڑوس میں بہت سے مسائل کو جنم دیا ہے ۔ اب افغانستان کے اکثر غیر پختون اس صورتحال کو بلکہ افغانستان کے سارے قومی بیانیےکو چیلنج کرتے ہیں، یہاں تک کہ افغانستان کے نام کو تبدیل کرنے اورپرانا نام خراسان کو بحال کرنےکا مطالبہ کرتے ہیں ۔ ظاہرشاہی دور کا بیانیہ متنازعہ بنا ہواہے ۔افغانستان میں مختلف قومی اکائیوں کی پرانی عددی رِٹ کو جعل شدہ قرار دیا جاتا ہے ۔اس صورت حال نے افغانستان کے پختونوں کو چڑچڑا بنا دیا ہے۔
– [ ] پشتو زبان، ادب اور تاریخ کی ترویج وترقی احسن اقدامات ہیں ۔ لیکن اِنکی آڑ میں تاریخ و ادب کو مسخ کرنا اور اُسے نفرت اور تعصب کا بنیاد بنا کرغرض آلود سیا ست کے لئے اپنے ملک کے اندر اورپڑوسیوں کے خلاف استعمال کرنا بہت بڑی حماقت اور خطا ہے ۔ افغانستان میں کچھ اِسی طرح کا کیا گیا ہے جس نے اندرونی اور بیرونی دشمنیاں پیدا کی ہیں ۔ پاکستان کے خلاف نفرت اور کدورت اور اُسکی قومی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کو نہ ماننے تکرار اِسی غلط روش کا نتیجہ ہے ۔ اِس سلسلے میں پاکستانی پالیسی ساز بھی کم علمی یا بے خبری کے عالم میں ہمیشہ اشتباہ آمیز سیاست کا شکار رہے ہیں اور غیر ارادی طور سے بالواسطہ افغان بیانئے کو تقویت فراہم کرنے کا باعث بنتے ہیں۔اگر آپ پاکستان کے ایوانوں میں کسی افغان پالیسی ساز سے پوچھیں کہ "پٹہ خزانہ” کیا بلا ہے تو کوئی بھی نہیں جانتا ۔اُ ن کو معلوم نہیں کہ اِس سند کے آنے کے بعد افغانستان نے موجودہ افغانستان کو پشتو زبان اور ادب کا اولین گہوارہ بنا کر جلدی پاکستان کی سرزمین پر دعویٰ شروع کیا تھا۔اِ س کے بغیر وہ افغانستان کو پشتونوں کا گہوارہ ثابت نہیں کر سکتے ۔
– [ ] اٖفغانستان کی ڈھائی سو سالہ سے زیادہ تاریخ میں صرف ظاہر شاہ اور صدرداؤدکا دور نسبتاً امن اور آشتی کا دور ہے ۔ مگران پُر امن حالات نے حکمران اشرافیہ کو موقع فراہم کیا کہ وہ ادبی اور سیاسی تاریخ کو اپنے مخصوص سانچے میں ڈھال کرمستقبل کے طالبعلموں کے لئے مشکلات پیدا کریں اور ہمسائیگی میں زہر گھول دے،افغانستان میں تاریخ کے ساتھ کھلواڑ اس وقت سے شروع ہوا ،جب حکمران جوتھے تو پشتون، مگراحمد شاہ ابدالی کے زمانے سے تاریخی طور پر فارسی زبان اورفارسی کلچر سے وابستہ رہے تھے ، بلکہ درانی سلطنت کےوجود میں آنے سے پہلے بھی وہ ایران کے ماتحت تھے اور فارسی کلچر کا حصہ تھے، اُنکوتیسری دنیا میں بیسویں صدی کی قومی آزادی کی تحریکوں اور خصوصاًہندوستان میں آزادی کی تحریک جو جلدہی پشتون علاقوں تک پھیل گئی تھی، کے زیر اثر داخلی دباؤ کیوجہ سے قومی تشخص کو اُجاگر کرنے اورقومی بیانیہ کو ترتیب دینے کے لئےپشتو زبان اور کلچر سے افغانستان کی سیاست، زبان اور تاریخ کو جوڑنا پڑا۔کیونکہ بنیادی طور افغانستان میں مختلف قومیتوں کاا کٹھ تلوار کا مرہون رہا ہے ۔اس کے لیے کہانیاں گھڑیں گئیں اور تاریخ اور پشتوادب کے ساتھ نت نئے افسانہ سازیاں کی گئیں۔جسے افغانستاان میں غیر پشتون نسلی شاؤنیزم سے تعبیر کرتے ہیں۔
– [ ] تاریخی لحاظ سےپشتو زبان وادب کا مرکز پشاور وادی رہے ہیں۔ موجودہ افغانستان فارسی زبان و ادب کا گہوارہ رہا ہے جو خراسان کے نام سے موسوم یا عظیم تر ایران کے زیر اثر تھا۔بلکہ افغانستان کے ملک الشعراء سارے کے سارے فارسی بان رہے ہیں ۔ پہلا ملک ا لشعراء قاری عبداللہ تھے اورآخری ظاہر شاہ کے سرکاری شاعر استاد خلیل اللہ خلیلی بھی فارسی زبان کے قادرالکلام شاعر تھے۔ (اگر چہ افغانستان میں سرکار نے اپنے آپ کو ایران سے علاحدہ کرنے کے لیے فارسی کو دری کا نام دینا شروع کیا جو فارسی زبان کا دوسرا نام ہے اور افغانستان کے عام لوگ ابھی تک دری بولنے والوں کوفارسی بان اور ان کی زبان کو فارسی پکارتےہیں)
– [ ] مشہور انگریزی لکھاریوں جو انیسویں صدی یا بیسویں صدی میں افغانستان سے رابطے میں آیے، جیسے ماؤنٹسٹوارٹ الفنسٹن، الیگزنڈر برنز اور اولف کیرو اور کئی دیگرنے بھی تصدیق کی ہے کہ حکمران درانی اور خاصکراشرافیہ فارسی بولتے تھے اور انکو پشتو نہیں آتی تھی۔ بلکہ جو پاکستان میں بھی باقی رہے ہیں ، اُن کی اکثریت ابھی تک گھروں میں فارسی تکلم کرتے ہیں ۔پھر تاریخی طور پر ان کا علاقہ ایران کا حصہ رہا تھا۔ سو ایک مشکل پیش آئی کہ کسطرح افغانستان کو اور خاص کردرانیوں کے آبا و اجداد کے علاقے کوپشتو ادب و تاریخ سے منسلک کیا جایے۔ نادرخان کے برسراقتدار آنے کے ساتھ محمد گل خان مہمند کو وزیر داخلہ، شمالی علاقہ جات کا انچارج ، قندہار اور ننگرہار کا ملٹری سربراہ اور ادبی امور کا کرتا دھرتا بنا دیا گیا۔ انہوں نے حکمران خاندان کی مرضی سے پشتوناٰئزیشن کا بیڑہ اٹھایا۔حکمران خاندان کی مدد سے انہوں نے موجودہ افغانستان کےنہ صرف ترکی اور فارسی میں موسوم جگہوں کے نام پشتو میں تبدیل کیے، پشتونوں کا شمال (افغان ترکستان) اور مغرب میں آبادکاری کا سلسلہ تیز کیا بلکہ افغانستان کی زبان و ادب میں بہت سی تبدیلیوں کا بیڑہ اٹھایا۔یاد رہے کہ شمال اور شمال مغرب میں پشتونوں کی آبادکاری بہت پہلے سے شروع ہوئی تھی، امیر عبدالرحمان نے اُ س میں تیزی لائی جبکہ ظاہر شاہی خاندان نے اُسکو اور سرعت بخشی ،اسکی حمایت انگریز بھی کرتے تھے کیونکہ وہ پہلے روسیوں اور پھر سوویت باشندوں سے ہمزبان فارسی بانوں اور پھرتاجکوں، ازبکوں، قرغیزوں اورترکمانوں کے باہمی روابط سے خوف زدہ رہتے تھے ۔ بلکہ افغان نیشنلزم کی بنیا دبھی انگریزوں نے فراہم کی ۔ کیونکہ پہلے پہل وہ ایران کے راستے نیپولین کی ممکنہ پیش قدمی کی ڈر میں مبتلا تھے، اِس لیے پہلے ایران سے پینگیں بڑھاتے رہے اور پھر روسیوں اور بعد میں اکتوبر انقلاب کی وجہ سے انقلابی نظریاتی یلغار سے خوفزدہ تھے اور اسلئے افغان نیشنلزم اور غیر پختون ترکستان میں پختونوں کی آباد کاری کی حمایت کرتے تھے اور افغان نیشنلزم کو مہمیز دیتے رہے ۔
– [ ] سنہ 1932 میں قندہار میں محمد عثمان خان بارکزئی کی سربراہی میں پشتو ادبی مرکز کی بنیاد ڈالی گئی۔اسی اثناء میں انکی نظر قندہار کے ابھرتے ہوےنوجوان عالم جو کاکڑ قبیلے سے تعلق رکھتا تھا اور فارسی، پشتو کے علاوہ تھوڑی بہت انگریزی اور اردوبھی جانتا تھا، پرپڑی۔ موصوف حکمران خاندان کے بھی چہیتے بن گئے۔1934 میں انجمنِ تاریخ بنائی گئی اور صدرداؤد کے بھائی سردار محمد نعیم خان اسکے سربراہ بن گئے تاکہ افغان تاریخ کو سرکاری سانچے میں ڈھالا جائے۔1936 کو پشتو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا اور سرکاری ملازمین پر اُسے جبری سیکھنے کاقانون بنایا گیا۔ 1937 کو پشتو ٹولنہ (انجمن پشتو) کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اسی طرح افغان تاریخ اور ادب کو پشتونائز کرنے کی ابتدا کی گئی۔ پشتون ہونے کے ناطےمیرے خیال میں یہ مستحسن اقدامات تھے لیکن سرکاری پالیسی کے ماتحت ہونے کے باعث سرکاری نیشنلزم کے آلہ کار بن گئے اور خدمات کے ساتھ ساتھ مسائل کو بھی جنم دیا۔
جلد ہی حبیبی صاحب پشتو ٹولنہ کے رئیس (ڈائرکٹر جنرل) بنا دیے گیے۔اسی زمانے میں موصوف نے تین ایسے کام کیے جو متنازعہ ہیں۔انہوں نے بلکہ انکی مدد سے مبینہ طور پرپشتو شاعری کا ایک ایسا نام نہادتذکرہ یا مجموعہ بنام "پٹہ خز انہ” (خفیہ خزانہ) ایک مبینہ طور سے ایسے نام (عبدالعلی اخوندزادہ خانوزئی آف ژوب) کی توسط سے دریافت کیا ،جو اُس نے 1944 میں چھاپ دیا ۔ خانوزئی کا نام تب لیا جب وہ مرگیا تھا ۔دعویٰ کیا گیا کہ "پٹہ خزانہ” دراصل 1729 کے لگ بھگ محمد بن داؤد ہوتک نے ہوتکوں (غلجیوں)کے فرمانروا شاہ حسین کے کہنے پر قندہار میں تحریر کیا تھا ،جسمیں پشتو شاعری کی قدامت کو جدیدفارسی شاعری سے بھی کئی عشرے پہلے اور پشتو کی ستارویں صدی کی معلوم تحاریر سےآٹھ سو سال قبل آٹھویں صدی عیسوی تک پہنچایا گیا تھا اور اسکا پہلا شاعر امیر کروڑ آف غور قرار دیا۔ اُسمیں زیادہ تر شعراء جعل کیے گئے ہیں۔
دراصل "پٹہ خزانہ” ایک سیاسی کتاب ہے جو سیاسی اغراض کو پورا کرنے کے لیے لکھی گئی تھی، اور جس کو ظاہر شاہی حکومت کی آشیر باد حاصل تھی ۔”پٹہ خزانہ” کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔پہلے حصہ میں چندایک کو چھوڑ کر ۲۲بائیس قدیم دور سے وابستہ شعراء ہیں، دوسرے میں مبینہ مولف کے ہمعصر اکیس شعراء ہیں اور تیسرے میں چھ خواتین شعراء ہیں اور باقی دو میں ایک مبینہ لکھاری محمد اور دوسرا اُسکا باپ داؤد ہیں ۔ سبھوں کو ملا کراکیاون شعراء بنتے ہیں ۔مجموعہ میں زیادہ تر پیروی ” تاریخ خان جہانی و مخزن افغانی” تالیف خواجہ نعمت اللہ ہروی سے کی گئی ہے اور حسب ضرورت اُسمیں تحریف بھی کی گئی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نعمت اللہ ہروی پہلا شخص مانا جاتا تھاجس نےغور کو پشتونوں کا جنم بھومی قرار دیکراُنکو بنی اسرائیل اور پشتو کو عبرانی کی شاخ قرار دیا تھابکہ بعدمیں حبیبی نے اُن کو آریاءالنسل گرداناہے۔
مجموعہ میں افسانے اور جعل سازی کا امتزاج ہے جس پر حقیقت کی نمک پاشی کی گئی ہے۔ اسکو جعل سازی کا خوبصورت مجموعہ قرار دیا جاتا ہے۔ جسکی اصلیت کوانگریزپشتون شناس سراولف کیروSir Olaf Caroe،انگریزایران شناس ڈیوڈمیکنزی David Neil MacKenzie، اطالوی لوسیا سیرینا لو ئیLucia Serena Loi، روسی شرق شناس یوری گنکووسکیY.V.Gankovosky،اورناروے کے افغان شناس جارج مارگنسٹئرن Georg Morgenstierneاور باواسطہ بہت دوسروں سکالروں نے مسترد کیا ہے۔ لیکن پاکستانی پشتو ادب اور تاریخ کے دو نامور علماء دوست محمد خان کامل اور خصوصاً قلندر مہمند نے علمی دلائل سے اس کے جعلی پن کو اپنی نوشت "پٹہ خزانہ فی ا لمیزان” میں طشت از بام کیا ہے۔مگر افغانستان کے پشتونوں نے اسے نہ صرف تاریخ کا حصہ بنادیا ہے بلکہ بعض نے اُسکو (نعوذُ با للہ)قرآن کریم کے بعد تقدس کا درجہ دیا ہے ۔پاکستانی پشتون مقلدین بھی اِس مرض میں مبتلا ہیں اور اُسکا دفاع کرتے ہیں ۔کیونکہ پاکستان میں اِسی طرح تحقیقی کام کو کبھی سنجیدہ نہیں لیا گیا ہے ۔
پٹہ خزانہ (خفیہ خزانہ) کے بارے میں پاکستانی مصنف اور تاریخ دان قلندر مومند رقمطراز ہیں : "پٹہ خزانہ ایک بے اصل، بے بنیاد، اور حد درجہ ناقابل تمسک تحریر ہے اور اِس کتاب کے صفحہ صفحہ پرغلط روایات، غلط توجیہات اور غلط واقعات ارادتاً اِس غرض سے لکھیں گئیں ہیں کہ پشتو ادب اور تاریخ کے بارے میں قارئین کوغلط فہمیوں میں مبتلا کرائیں جو لکھاریوں کے ایک خاص گروپ نے مخصوص مقاصد کے لئے اپنائے ہیں ۔”
یہاں پر قلندر صاحب نے لکھنے والوں کے گروپ کا ذکر کیا ہے جو با لکل صحیح ہے کیونکہ یہ نام نہا د خزانہ صرف ایک آدمی کی کاوش نہیں ہوسکتا ،بلکہ ظاہر شاہی دور کے دوسرے پشتون مصنفین یا شعراء نے اُ ن کی مدد کی ہوگی ۔اغلباً افغانستان میں مشہور کئے گئے پشتو زبان وادب اور تاریخ کے پانچ ستاروں نے اِس کارخیر(شر) میں ہاتھ بٹھایا ہوگا ۔
اسطرح موصوف نے 1941 میں انکے بقول ہلمند کے علاقہ جات میں اکبر زمینداوری کے نام سے ایک گمنام شاعر کے چند اشعار بغیر کسی ثبوت کےمبینہ طور پر دریافت کیے جس پر قلندر مہمند نے یہ تبصرہ کیا ہے:”حبیبی صاحب کے دیگر انکشافات کی طرح اُنکے اس انکشاف کو بھی بغیر بحث کے مانا گیا اور کسی نے اس پر کسی اضافے کی کوشش نہیں کی۔حبیبی مرحوم ہمارے تاریخ کے ایک ایسے دور میں پیدا ہوئے تھے ، جنکی علمیت اور فضیلت کواس حد تک ماناجاتا تھا کہ انکی ساری تحاریر پشتو بولنے والوں نے بغیر کسی جرح اور تعدیل کے قبول کیں تھیں۔ یہ دور پشتون تاریخ کے بنانے کا دور تھا، سیاسی بھی اور ادبی بھی۔ اور مرحوم عبدالحئ حبیبی نےدونوں میدانوں میں پشتونوں کی بہت سی ضروریات پوری کیں۔”
اس کے علاوہ مرحوم نے حسب نسب و زادگاہ سید جمال ا لدین افغانی کے نام سے ایک کتاب تحریر کی اور کُنڑ کے اسد آباد کو افغانی کا زادگاہ بنایا اور موصوف کو پیر بابا کی نسل سے جوڑتے ہوئے اسے سید زادہ قرار دیا۔(اِسطرح کا دعویٰ شایداپنی اصلیت چھپانے کی خاطر خود افغانی نے بھی کیا تھا)۔برطانوی ہند کے نمائندے کی رپورٹوں سے عیاں ہے کہ افغانی جو استانبولی سیّد اور رومی سیّد سے مشہور تھا ، بہت مختصر عرصہ کے لئے افغانستان میں مقیم تھا اور خاصکرمختصر عرصے کے حکمران سردارمحمدعظیم خان کے بہت قریب تھا، جنہیں امیر شیرعلی خان نے 1868کو دوبارہ بر سر اقتدار آنے کے بعد ملک بدر کیا تھا۔ موصوف نے اسلامی دنیا کا لیڈر بننے کے لیے اپنی شیعہ شناخت کو چھپانے کی خاطر افغانی کا تخلص پسند کیا تھا ،مگر وہ دراصل ایران کے اسدآباد میں پیدا ہوئےتھے، قزوین، پھرتہران میں پڑھے تھےاور 1850میں بغداد سے عالی تحصیلات ختم کیں تھیں، اور صفوی شاہ کےقریب رہےتھےاور افغانستان، انڈیا، مصر، پیرس اور پھر استنبول گئےتھے، جہاں وہ 1897ءکوفوت ہوگئے۔ ایران میں شاہ کے خلاف جب سازش ہوئی اور اُن کے چیلہ نے 1895 میں مرزارضا ناصرالدین شاہ کو قتل کیا تو ایران نے ان کو سازش میں ملوث پا کرترکی سے انکا انخلا ءاور ایران کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا جو ترکی نے اپنی اور ایران کیساتھ قدیمی سنی شیعہ تاریخی دشمنی کے تناظر میں اسے افغان کہکر مستردکیا تھا ۔ موصوف کی لاش کو پھر افغان حکومت نے 1944 میں ترکی سے لا کر کابل یونیورسٹی کے احاطہ میں دفنا دیا تھا۔ موصوف جو لکھا ری بھی تھے، نے ایک لفظ بھی پشتو زبان میں نہیں لکھا ہے ۔
جاری ہے