’یہ ظلم ہے‘، افغان طالبات کو لندن سے منتقل کرنے کا فیصلہ
طالبان کے قبضے کے بعد برطانیہ میں پناہ لینے والی افغان لڑکیوں کو حکومت نے اچانک لندن سے دور منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ انہیں سکول کا سالانہ امتحان لینے کی بھی اجازت نہیں دی جا رہی۔
دو 16 سالہ افغان لڑکیوں کے 15 مئی سے سالانہ امتحان شروع ہونے ہیں لیکن انہیں اہل خانہ سمیت لندن چھوڑنے کا نوٹس دیا گیا ہے۔
افغان لڑکیوں کی ہیڈ ٹیچر وکٹوریہ ٹلی نے برطانوی اخبار آبزرور کو بتایا کہ انہیں اس فیصلے سے بہت دکھ ہوا ہے جس سے 13 دیگر افغان طالبات بھی متاثر ہوں گی۔
لندن میں واقع فلحم کراس گرلز کی ہیڈ ٹیچر نے بتایا کہ یہاں سے منتقل ہونے کے بعد کوئی سکول انہیں اس موقع پر داخلہ نہیں دے گا اور ایسا سکول تلاش کرنے میں مشکل ہوگی جو یہی کتابیں اور نصاب پڑھا رہا ہو۔
ان دونوں افغان لڑکیوں کو مارچ کے آخر تک لندن سے 60 میل دور واقع نارتھیمپٹن شائر منتقل ہونے کا وقت دیا ہے۔
ہیڈ ٹیچر وکٹوریہ ٹلی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ’ان بچیوں نے غیریقینی مشکلات جھیلی ہیں اور انتہائی خوفناک ہوٹل میں رہنے کے باوجود ان کے کام کرنے کا طریقہ غیرمتوقع طور پر اچھا ہے۔ اور جنرل سیکنڈری سکول سرٹیفکیٹ کے امتحان سے محروم کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔‘
’گزشتہ ہفتے ان میں سے ایک لڑکی زارا انتہائی پریشان حال میں میرے پاس آئی اور کہا ’مس یہ ہمیں منتقل کر رہے ہیں پلیز انہیں نہ کرنے دیں۔‘
زارا کے والد ادیب کوچی کے پاس برطانوی پاسپورٹ ہے جنہوں نے مقامی کونسل سے مدد کی درخواست کی ہے۔