کالم

قاسم کے ابو کمرہ عدالت میں

جون 12, 2023 5 min

قاسم کے ابو کمرہ عدالت میں

Reading Time: 5 minutes

سفید شلوار قمیض میں ملبوس دائیں ہاتھ سے چھوٹی تسبیح پھیرتے عمران خان پچھلے بیس منٹ سے جسٹس محسن اختر کیانی کی عدالت میں بیٹھے اپنے کیس کی باری کا انتظار کر رہے ہیں.

کمرہ عدالت میں اس دوران انہیں گفتگو، انٹرویو یا پریس کانفرنس کی اجازت نہیں، کافی دیر تک نو تعمیر شدہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا عالیشان کمرہ عدالت اور اس میں بیٹھے جج صاحب پر طائرانہ نظر ڈالتے انہیں بہت کچھ سوچنے کا موقع مل رہا ہے، پاس بیٹھے نوجوان وکیل ایڈوکیٹ نعیم پنجوتھا بیچ میں سرگوشی کے انداز میں کچھ بتاتے ہیں جس پر خان صاحب ایسا تاثر دیتے ہیں کہ جیسے انہیں سب پتا ہے.

عام لوگوں کے کیس میں وکیلوں کے دلائل اور جج کے ریمارکس سن سن کر خان صاحب بور ہو رہے ہیں.

ان کا اپنا کیس کچھ یوں ہے کہ اسلام آباد کی پرانی ضلعی کچہری میں نو مقدمات میں سیکیورٹی خدشات کی بنا وہ پیش نہیں ہونا چاہتے اور اسلام آباد کمشنر نے خان صاحب کی مقدمات کی جوڈیشل کمپلیکس منتقلی کی درخواست پر فیصلہ دینا ہے، اگر کمشنر نہ مانا تو پھر خان صاحب اسلام آباد ہائی کورٹ میں موجود ہوتے ہوئے کمشنر کے فیصلے کو چیلنج کر دیں گے.

مسئلہ یہ ہے کہ ہائی کورٹ نے خان صاحب کو ضلعی کچہری میں پیش ہونے کا حکم دے رکھا تھا اور آج انہوں نے کچہری پیش ہونے سے پہلے کمشنر کو درخواست ڈال دی ہے.

اگر کمشنر نے درخواست منظور کر لی تو یہاں ہائی کورٹ سے سیدھے جوڈیشل کمپلیکس جا کر نو مقدمات میں حاضری لگا کر ضمانت لے لیں گے.

حالیہ عدالتی روایات کے مطابق تمام نو مقدمات میں عمران خان کو ضمانت ملنا لازمی ہے، خان صاحب کے دور میں بھی مخالفین کے خلاف ایسے ہی مقدمات بنتے تھے مگر اس وقت تھوک کے حساب سے عدالتی ضمانتوں کا رواج نہیں تھا-

اب خان صاحب نے کمال ہوشیاری سے اسلام آباد ہائی کورٹ کی پناہ گاہ میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا، اصولی طور پر تو ہائی کورٹ کی ان نو مقدمات میں ضمانت آج تک تھی، خان صاحب چاہتے تو کمشنر کو کمرہ عدالت کی منتقلی کی درخواست پہلے بھی دے سکتے تھے مگر آج ہائی کورٹ میں بیٹھ کر کمشنر کو درخواست بھجوانے کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ کمشنر صاحب جو بوجھ ہائی کورٹ پر پڑنا ہے وہ آپ ہی اٹھا لو اور تب تک میں ہائی کورٹ کے احاطے کی پناہ میں رہوں‌گا۔

خان صاحب بھی دائیں بائیں دیکھ دیکھ کر تھک گئے ہیں اور گہری سوچ میں گم ہیں۔

اتنا اور ایسے خاموش ماحول میں سوچنے کا موقع شاید انہیں زمان پارک میں بھی نہ ملتا ہو – کچھ ڈرائی فروٹ کی مدد سے خان صاحب نے جبڑوں کی ورزش جاری رکھی ہوئی ہے، اس جبڑوں کی ورزش کی وجہ سے ہی آسمان نے خان صاحب کو ثریا سے زمیں پر دے مارا ہے.

آج صبح صبح ہی خان صاحب ہائی کورٹ پہنچے تو چیف جسٹس کے سب سے بڑے کمرہ عدالت میں جا بیٹھے، کمرہ عدالت خالی تھا ماسوائے خان صاحب کے چند وکلا اور درجن بھر صحافیوں کے جو خان صاحب کو نیٹ پریکٹس کرو ارہے تھے، نیٹ پریکٹس صحافیوں کی بھی ہو رہی تھی کیونکہ خان صاحب جو بھی بول رہے تھے وہ ٹی وی چینلوں پر چل تو رہا نہیں تھا مگر بہرحال زبان کی بیٹنگ اور قلم کی باؤلنگ جاری رہی بیچ میں کچھ فین وکلا بھی فیلڈنگ کے فرائض انجام دے رہے تھے.

حسب معمول خان صاحب ایمپائر کی انگلی پر انگلیاں اٹھا رہے تھے، تسبیح پھیرتے خان صاحب اُسی سوراخ میں انگلی ڈال رہے تھے جہاں سے وہ پہلے ڈسے جا چکے تھے، بولے مزاکرات سیاستدانوں سے نہیں بلکہ آرمی چیف سے کرنے ہیں، خان صاحب کے چہرے کی ماشااللہ ہشاشیت بشاشت دیکھ کر لگتا تھا کہ ایک بڑا وکیل موٹے تازی فیس کے باوجود کیس ہار کر مسکرا رہا ہو اور منشی سے نئے کیس کی تاریخ پوچھ رہا ہو، بیرسٹر عمران احمد خان نیازی کی پارٹی تباہ حال ہو چکی، لیڈران جیلوں میں بند اور کارکن روپوش یا فوجی حکام کی قید میں مگر خان صاحب سے جب پوچھا گیا کہ کیا یہ سب کچھ ان کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے نہیں ہوا تو بولے میں نے کیا غلط کیا.

القادر ٹرسٹ کیس متعلق سوالات پر بھی بھرپور دفاع کیا اور کہا کہ پیسہ پاکستان آیا اور ابھی بھی سپریم کورٹ کے پاس ہے جا کر لے لیں، جب پوچھا گیا کہ اگر وہ وفاقی وزیر ہوتے تو بطور رکن کابینہ خفیہ معاہدہ بغیر پڑے منظور کر لیتے، اسکا سیدھا جواب دینے کی بجائے بولے میں نے درست فیصلہ کیا، بار بار کہتے رہے پی ڈی ایم کی حکومت الیکشن سے بھاگ رہی ہے اور یہ لوگ اکتوبر میں بھی الیکشن نہیں کرائینگے، میں نے خان صاحب سے پوچھا آپکے ہاتھوں کی رونق نظر نہیں آ رہی تو حیران ہو کر اپنے ہاتھوں کو دیکھا اور کچھ سوچ کر بولے وہ صبح چار بجے اٹھا تھا تو بس .

آخر میں خان صاحب سے ایم جے ٹی وی کو انٹرویو دینے کا کہا تو بولے تم نہیں چلا پاؤ گے جب یقین دلایا کہ چلا دونگا تو بولے تو پھر وہ ڈآلا آ جائے گا جس پر میں نے کہا اب کی بار الزام آپ پر نہیں ہو گا، مگر خان صاحب نہیں مانے-

تحریک انصاف کے سربراہ کو عدالت انصاف کی کاروائی دیکھتے اب پونا گھنٹا ہو چکا تھا،تسبیح کے دانے تیزی سے گھوم رہے تھے خان صاحب زیر لب کچھ پڑھ رہے تھے، اور پھر ان کا کیس کال ہو گیا، عمران احمد خان نیازی بنام ریاست
خان صاحب اپنی کرسی پر ہی بیٹھے رہے، ان کے وکلا جسٹس محسن اختر کیانی کے روسٹرم پر پہنچ گئے، ڈیرہ غازی خان میں عمران خان کی بہنوں کیخلاف زمین کی خریداری میں بدعنوانی کے مقدمے میں خان صاحب کی حفاظتی ضمانت کے لئیے درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات ختم کرتے ہوئے جسٹس محسن کیانی نے پراپر درخواست دائر کرنے کی مہلت دے دی، عجیب صورتحال یہ ہے کہ عمران خان درخواست گذار کا نام ٹی وی چینلوں پر اسٹیبلشمنٹ کی ماورا قانون ھدایات کے باعث ویسے ہی نہیں چل سکتا، کچھ لوگوں نے انہیں قاسم کا ابو لکھ کر رپورٹ کرنے کی کوشش ضرور کی ہے، مگرصحافتی ذرائع کے مطابق معزز جج جسٹس محسن اختر کیانی نے بھی ماورا قانون و آئین ھدایات کے ذریعے اپنے نام کی اشاعت پر پابندی لگا رکھی ہے۔

بہرحال محرکِ انصاف کے پاس بظاہر ٹھنڈی عدالتوں میں بیٹھ کر وکیلوں اور صحافیوں سے بے فائدہ گفتگو کے علاوہ کرنے کو کچھ نہیں ہے، وہ وکیلوں اور ججوں کے نرغے میں ہیں اور یہ وہ عدالتیں ہیں جو ریمارکس تو دے سکتی ہیں مگر ٹھوس فیصلے نہیں۔

وکلا نے پوچھا خان صاحب اس بار کیا وکیلوں کو بھی ٹکٹ ملینگے تو خان صاحب نے جواب دیا لگتا ہے اس بار صرف وکیلوں کو ہی ٹکٹ دینے پڑیں گے۔

میں نے پوچھا جو کچھ آپ کے کارکنوں اور لیڈروں کے ساتھ ہوا وہی اگر آپ کے ساتھ ہوتا تو کیا آپ وہی کچھ نہ کرتے جو آپ کے بہت سے لیڈروں نے کیا ؟
خان صاحب بولے مجھ پر قاتلانہ حملہ ہوا میں چار دن جیل میں رہا۔

میں نے جواب دیا جیل نہیں گیسٹ ہاؤس میں۔ خانُصاحب بولے وہ بھی نیب کی جیل ہی تھی ناں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے