بروقت عام انتخاب سوالیہ نشان اور سات باتیں!
Reading Time: 3 minutesتحریر : عبدالجبار ناصر
وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کے مردم شماری 2023 کے مطابق عام انتخابات کرانے کے بیان کے بعد پانچ باتوں کی وضاحت اور تشریح ضروری ہے۔
پہلی بات
وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کے بیان کے بعد سب سے اہم بات مردم شماری 2023 کے مصدقہ اعدادوشمار کی ہے۔ 23 مئی 2023 تک کے غیر حتمی سرکاری ذرائع کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کے چاروں صوبوں اور وفاقی دارالحکومت کی مجموعی آبادی 24 کروڑ 92 لاکھ 26 ہزار 753 افراد اور مجموعی شرح اضافہ تقریباً 20 فیصد بنتا ہے (صوبوں کے حساب سے تفصیل منسلک چارٹ میں شامل ہے)۔
دوسری بات
یکم اگست 2023 تک مختلف ذرائع سے ملنے والے مبینہ اعداد و شمار اور دعوے عجیب و غریب ہیں، ان میں کتنی حقیقت ہے یہ تو نتائج سامنے آنے پر ہی واضح ہوگا۔ ایک دعویٰ ہے کہ پنجاب کی 13 کروڑ، سندھ کی 6 کروڑ 40 لاکھ، خیبرپختونخوا کی 4 کروڑ 10، بلوچستان کی 2 کروڑ 20 اور اسلام آباد کی 24 لاکھ آبادی ہے۔ یعنی مجموعی آبادی 25 کروڑ 84 لاکھ افراد اور مجموعی شرح اضافہ 24 فیصد سے زائد بنتا ہے، جو سالانہ شرح اضافہ میں 4 فیصد ہے اور اگر واقعی صورت حال یہی ہے یا اس سے قریب تر یا سالانہ شرح اضافہ 3 فیصد سے زائد ہے تو یہ بہت ہی خوفناک بات ہے، کیونکہ ہمارے قرب و جوار میں کوئی ایک بھی ملک 2 فیصد کے قریب بھی نہیں ہے۔ بظاہر تو یہ دعویٰ بے جان سا لگتا ہے، مگر ساتویں اور پہلی ڈیجیٹل مردم شماری 2023 کے دوران صوبے اور انتظامیہ جس منظم انداز میں آبادی بڑھائو اور کٹائو میں مصروف تھی، اس میں یہ بعید بھی نہیں ہے۔
تیسری بات
اطلاعات کے مطابق ادارہ شماریات حکومت پاکستان (PBS) نے نتائج مرتب کرکے مشترکہ مفادات کونسل کو پیش کردیے ہیں اور ممکنہ ہے کہ چند دنوں میں نتائج کا اجراء بھی ہو۔ (اس ضمن میں یکم اگست 2023 کو روز نامہ دنیا کراچی میں ہماری رپورٹ بھی شائع ہوئی ہے)۔
چوتھی بات
اگر آبادی کے اعدادوشمار 23 مئی 2023 کے غیر حتمی یا دعوے کے مطابق ہوتے ہیں اور مشترکہ مفادات کونسل (CCI) اسکی منظوری دیتی ہے تو پھر قومی اسمبلی میں صوبوں کے کوٹے میں اچھا خاصا فرق پڑے گا، یعنی موجودہ کوٹہ کے حساب پنجاب، خیبر پختونخوا اور اسلام آباد کی نشستوں میں 7 سے 10 جنرل اور 2 سے 3 خواتین کی مخصوص نشستوں میں کمی، جبکہ یہی نشستیں بلوچستان اور سندھ منتقل ہونگی یعنی انکے کوٹے میں اضافہ ہوگا، تاہم اس کے لیے آئین کے آرٹیکل 51(3) کی ترمیم (چارٹ میں تبدیلی) لازمی ہے اور موجودہ صورتحال میں قومی اسمبلی میں اس وقت مجموعی ارکان کی تعداد 342 کے مجموعی ایوان کی دوتہائی اکثریت نہیں ہے، اس لیے یہ ترمیم یعنی صوبوں کے کوٹے میں ردوبدل ناممکن ہے، الا یہ کہ عدالت عظمیٰ کوئی نئی تشریح کرے۔
پانچویں بات
اب سوال یہ ہے کہ پنجاب، خیبرپختونخوا اور اسلام آباد کمی یا بلوچستان اور سندھ متوقع عام انتخابات کی حد تک موجودہ کوٹے پر بآسانی راضی ہونگے؟ ویسے آئین کے آرٹیکل 51 (3) کے مطابق راضی ہونے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہے، الا یہ کہ عدالت عظمیٰ کوئی حل تلاش کرے۔ بظاہر تو یہ بات طے ہےکہ مشترکہ مفادات کونسل #مردم_شماری2023 کی منظوری دے بھی تو قومی اسمبلی میں صوبوں کا کوٹہ (نشستوں کا چارٹ) موجودہ ہی رہے گا، اس میں وقتی طور پر پنجاب، خیبرپختونخوا اور اسلام آباد کا فائدہ، جبکہ بلوچستان اور سندھ کا نقصان ہے۔
چھٹی بات
وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کے حالیہ بیان اور حکومتی سرگرمیوں سے یہ بات تو تقریباً طے نظر آتی ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل (CCI) چند گھنٹوں یا دنوں میں مردم شماری 2023 کی منظوری دے گی اور پھر انتخابات 6 سے 9 ماہ سے پہلے کسی صورت ممکن نہیں ہیں۔ یعنی عام انتخابات فروری سے مئی 2024 کے درمیان ہی ہوسکتے ہیں۔
ساتویں بات
مردم شماری 2023 کی مشترکہ مفادات کونسل منظوری کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نئی حلقہ بندی کے لیے آئینی طور پر پابند ہے۔ مردم شماری کے بعد آئین کے آرٹیکل 51 (5) کے تحت صوبوں اور آرٹیکل 51(3) اور آرٹیکل 106 کے مطابق پہلے سے تقسیم کوٹہ کے حساب نئی حلقہ بندی ہوگی، اگر قومی اسمبلی کی دو تہائی اکثریت موجود ہوتی تو آرٹیکل 51(3) ترمیم سے صوبوں کا کوٹہ تبدیل ہوتا، مگر دوتہائی اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے اس میں ترمیم یا صوبوں کی قومی اور صوبائی اسمبلی نشستوں کی تعداد میں کمی بیشی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
خلاصہ
مردم شماری 2023 کی مشترکہ مفادات کونسل(CCI) سے منظوری ہوگی اور عام انتخابات جلد سے بھی جلد فروری 2024 میں آئین کے آرٹیکل 51 (5) کے مطابق حلقہ بندی کے حساب سے ہونگے، اس سے صوبوں کے اندر قومی اور صوبائی اسمبلی کے ڈویژن اور اضلاع کے کوٹے میں 10سے 30 فیصد تک تبدیلی یقینی ہے۔