یورپ میں "روما پیپل” کی خاص کمیونٹی اور سربیا کے دوست
Reading Time: 6 minutesصادق کاکڑ – بیلجیئم
کہتے ہیں کہ ہر انسان کو ہمیشہ اچھے لوگوں کی تلاش رہتی ہے اور جب کوئی اچھا انسان اسے مل جاتا ہے تو وہ اپنے حلقہ احباب یا دوستی کے سرکل میں داخل کر لیتا ہے۔ کبھی کبھار تو کسی کا ایک آدھ جملہ یا محض چند منٹ کی ملاقات ہی کافی گہری دوستی میں بدل جاتی ہے۔
یورپ میں سفر کرنے کے دوران بےشمار لوگوں سے ملا، بہت سے نئے دوست بنائے اور ہر ملک و قوم کے لوگوں سے ان کی تاریخ اور کلچر جاننے کی کوشش کی۔ کچھ دوستیاں ایسی بنی جو ساری زندگی ساتھ رہنی ہیں۔ دو سال قبل جب میں ایک ورک شاپ میں مالٹا گیا تو وہاں سربیا سے بھی 3 شرکاء آئے ہوئے تھے اور غالبا تمام ورک شاپس میں سربیا وہ واحد ملک ہوگا جس کے تمام شرکاء سے میری دوستی ہو گئی۔
یہاں میرے 3 دوست ہیں اور تینوں ہی نیش میں رہتے ہیں۔ مالٹا میں پہلی ملاقات کے بعد سے ایوانا اور میلوش مسلسل مجھے نیش بلا رہے تھے لیکن میں کبھی پلان نہ بنا سکتا۔ میلوش تو ایک بار دو دن کے لئے میرے پاس برسلز بھی آ گیا جہاں ہم نے بہت انجوائے کیا۔ اب میلوش نے خود ورک شاپ کروانا تھا تو میرے پاس انکار کی گنجائش ختم ہو گئی تھی۔ یہ بات جب ایوانا کو بتائی تو اس نے کافی اصرار کیا کہ آپ نے ہمارے دفتر آ کر ہمارے صدر سے بھی ملنا ہے۔ ایوانا یہاں کی لوکل گورنمنٹ کی موجودہ کابینہ کے ساتھ "انٹرنیشنل کوآپریشن برائے کلچر اینڈ ایجوکیشن” آفیسر کے طور پر کام کرتی ہے۔ ایوانا نے میرے آنے سے پہلے ہی صدر سے میری ملاقات فکس کی اور یہاں کی روما کمیونٹی کے مسلمانوں کے نمائندے کو بھی بلا لیا تھا۔
یورپ میں "روما پیپل” ایک خاص کمیونٹی ہے جو تقریبا ہر ملک میں پائی جاتی ہے۔ پورے پورپ میں ان کی 10۔12 ملین کے قریب آبادی ہے۔ یہ لوگ 10۔11 صدیوں قبل پنجاب کے ریجن سے یورپ گئے ہیں اور آج تک اپنی الگ شناخت کے ساتھ وہاں موجود ہیں۔ مجموعی طور پر کافی غریب ہیں جن کے پاس ڈاکومنٹس بھی نہیں ہوتے، تو یہ تعلیم بھی خاص حاصل نہیں کرتے اور نوکریاں بھی نہیں ہوتی۔ کئی یورپین ممالک میں 1 فیصد تک موجود ہیں اور مقامی حکومتوں نے کئی بار ان کو مقامی سوسائٹی میں ضم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن یہ ضم ہونے پر راضی نہیں ہے اور آج بھی اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔ صدیوں سے یورپ میں رہنے کے باوجود یہ لوگ آج بھی نہایت کمپسری زندگی گزار رہے ہیں۔
ان کے نمائندوں کو میٹنگ میں بلانے سے ایوانا کا مقصد یہاں کی روما کمیونٹی کے ساتھ مقامی حکومت برتاؤ دکھانا اور مختلف پراجیکٹس پر ڈسکشن تھی۔
اس ورک شاپ کا سارا انتظام میلوش ہی کر رہا تھا، میلوش کی اپنی NGO ہے اور گزشتہ چند سالوں میں 66 ہزار یورو دیگر این جی اوز کو ڈونیشن دے چکا ہے کہ وہ نوجوانوں کے لئے مختلف منصوبوں پر کام کریں۔ میلوش سے پہلے دن ہی ہوٹل میں ملاقات ہو گئی۔ میلوش نے ایوانا کو اطلاع دی تو فورا اس کی کال آ گئی اور اپنے شہر میں خوش آمدید کہا اور بتایا کہ میں کل ملنے آوگی۔ ورک شاپ کی دوسری رات ایوانا ملنے آئی اور اس کا اصرار کچھ کھانے کی جگہ چلنے کا تھا لیکن میں نے اسے بتایا کہ ہم ڈنر تھوڑا جلدی کر چکے ہیں۔ اس نے بتایا کہ ہماری تیسری دوست میلیسا بھی ہمیں جوائن کرےگی۔ میلیسا نیش کی ایک یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہے۔
ہم چونکہ شہر کے سینٹر میں ہی تھے تو واک کرتے کرتے ایک بڑے بار میں داخل ہوئے۔ اندر کافی رش تھا تو ہم باہر نکلے اور باہر ہی بیٹھ گئے، موسم ہلکا ہلکا سرد تھا لیکن ہماری نشت کے اوپر لگے ہیٹر ہماری مہمان نوازی کا حق ادا کر رہا تھا۔ ایوانا نے اپنے لئے جوس اور میرے لئے کافی کا آرڈر دے دیا۔
یہاں یہ بتاتا چلوں کہ ایوانا سے دوستی کی ابتداء بھی بڑی عجیب تھی۔ مالٹا میں پہلے دن ہی ہم نے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کا تبادلہ کیا تھا۔ میری عادت ہے کہ میں یورپین دوستوں کو فیس بک پر ایڈ کرنے سے بہت گریز کرتا ہوں کیونکہ میں اکثر مختلف چیزوں پر لکھتا رہتا ہوں اور یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ فیس بک پر گوگل ترجمہ بہت غلط ہو سکتا ہے۔ ایوانا کو فیس بک پر ایڈ کرتے وقت اپنا یہ خوف بھی ظاہر کیا کہ میری کسی پوسٹ پر توجہ نہ دیں۔ مالٹا میں تیسرے دن ہم شہر گھومنے گئے تھے اور میں نے ساحل سمندر پر پرانی کشتیوں کے ساتھ ایک عام سی تصویر لے کر مالٹا میں چیک ان کیا، تو ہوٹل پہنچنے تک اس پر 300 سے زائد لائکس آئے۔ ایوانا نے جب دیکھا تو مجھے کہا کہ:
"صادق!!
لوگ تو تمہاری تصویر اتنا زیادہ لائک کر رہے ہیں حالانکہ اس تصویر میں تو ایسا کچھ نہیں ہے”
اور ساتھ ہی اس نے ایک ناقابل اشاعت قسم کا جملہ پھینکا۔ جس پر وہاں موجود سب دوستوں کا قہقہہ بلند ہوا اور وہی قہقہہ ہماری دوستی کی بنیاد بنا۔
کافی آئی تو ہم نے حال احوال کے بعد سربیا کے کلچر اور یہاں کی تاریخ اور لوگوں کے مزاج پر کافی دیر گفتگو کی، ہماری گفتگو بلقان کے سابقہ یوگوسلاویہ کی تاریخ اور ان ممالک کی آزادی کے اردگرد گھوم رہی تھی۔
تھوڑی دیر میں میلیسا بھی آ گئی اور لیٹ ہونے پر معذرت کرنے لگی۔ میلیسا کے آنے کے بعد ہم اندر چلے گئے اور تھوڑی دیر بعد میلوش بھی وہاں آ گیا۔ وہ رات کافی خوبصورت گزری اور ہم پرانی یادیں تازہ کرنے کے علاوہ بہت کچھ ڈسکس کرتے رہے۔
بار سے نکلے تو ایوانا اور میلیسا اپنے گھروں کو چلی گئیں اور میں میلوش کے ساتھ ہوٹل آ گیا۔
دو دن بعد ایوانا نے لنچ کے وقفے میں میری میٹنگ رکھی تھی، اسے بتایا تھا کہ میرا لنچ کا موڈ نہیں بس ملاقات ہی کافی ہے۔ ایوانا نے مجھ سے کہا کہ چونکہ یہ میٹنگ روما کے مسلم آبادی کے بارے میں ہے اور خاص کر لڑکیوں کی تعلیم بھی زیر بحث آئے گی تو آپ کے گروپ میں موجود مسلمان لڑکی عائشہ کاکڑ کو بھی میٹنگ کے لئے بلانا ہے۔ میں نے عائشہ سے بات کی تو اس نے رضامندی ظاہر کی۔
تقریبا 1 بجے ایوانا ہمیں لینے آئی۔ ہم ان کے ساتھ ان کے دفتر چلے گئے۔ تھوڑی دیر ایوانا کے کولیگ کے ساتھ گپ شپ چلتی رہی تو اتنے میں نائب صدر آ گئے۔ ایوانا نے بتا دیا تھا کہ صدر کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی ہے تو میٹنگ میں اب نائب صدر شرکت کریں گے۔ کچھ دیر ثقافتی ایشوز پر بات ہوئی تو روما کمیونٹی کے مسلمانوں کے نمائندے ایگور اور وکٹوریہ آ گئے۔ ایگور نے بتایا کہ اس کی ماں روما مسلم اور باپ ایک سرب شہری ہے۔
ان دونوں نے بتایا کہ یہاں کے روما کمیونٹی میں 50 فیصد مسلمان اور 50 فیصد عیسائی ہے۔ پھر مسلمانوں کے بارے میں ان کے پرانے اور موجودہ منصوبے بتائے اور شہری انتظامیہ کی طرف سے روما اور مسلمانوں کے لیے اٹھائے گئے اقدامات پر کافی مشکور نظر آئے۔ مسجد اور دینی تعلیم کے علاوہ رمضان المبارک میں افطاری کروانے کا خاص طور پر ذکر کیا اور مجھے اپنے موبائل سے تصویریں دکھاتے رہیں۔ وہی پر مستقل کے ایسے منصوبے بھی ڈسکس ہوئے جن پر ہم تینوں گروپ مل کر کام کر سکتے ہیں۔ ان شاءاللہ۔
ڈیڈھ گھنٹہ بعد میٹنگ ختم ہوئی تو آخری بات میرے لئے حیران کن تھی۔ وکٹوریہ نے بتایا کہ یہاں روما میں مسلمانوں کی آبادی اگرچہ 50 فیصد ہیں لیکن روما کمیونٹی میں کوئی بھی فوت ہو جائے تو اس کی تدفین مسلمانوں کے طریقے سے ہوتی ہے۔
ہم نے اجازت چاہی تو ایگور نے لنچ کے بغیر اجازت دینے سے صاف انکار کر دیا۔ کہ آپ نے لنچ لازمی میرے ساتھ کرنا ہے۔ ہم سے خواہش پوچھی تو ہم نے صرف اتنا کہا کہ حلال ہونا چاہئیے۔ یہ سب لوگ ہمیں لے کر نیش کے مشہور روایتی ہوٹل لے گئے جو دنبہ کھلانے کے بارے میں مشہور ہے۔ ہم وہاں پہنچے تو ایک ایک چیز سے سربیا کی ثقافت جھلک رہی تھی۔ ہم نے درخواست کی کہ ہمارے لئے سلاد وغیرہ ہی کافی ہے کیونکہ یہ دنبہ حلال نہیں ہے۔ ایگور نے بتایا کہ کئی مسلمان یہاں کھاتے ہیں۔ تب ان کو حلال کا سمجھانا پڑا کہ ہر دنبہ، بیف یا چکن حلال نہیں ہوتا، بلکہ صرف ذبیحہ حلال ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہمارے لئے مچھلی آڈر کی۔ کھانا آیا تو دنبہ اور مچھلی کے ساتھ مختلف قسم کے خالص روایتی سلاد اور کچھ دیگر پکوان بھی ساتھ آ گئے۔ لنچ کے دوران ایوانا کے کولیگ پاجا نے بہت زیادہ ہنسایا، کھانے کی یہ مجلس تقریبا 2 گھنٹے چلی اور پچھلی میٹنگ کے برعکس اب ہم اتنا ہنسے کہ زیادہ ہنسنے سے اٹھتے وقت جبڑوں میں باقاعدہ درد محسوس ہو رہا تھا۔
سربیا کے دوست، وہاں کی خوبصورتی اور ثقافت کے علاوہ ان کی دل و جان سے میزبانی دیکھ کر میں سچ میں اس بات کا قائل ہو گیا کہ بالقان ہی بات ہی کچھ اور ہے، جس کی ایک جھلک میں سربیا میں دیکھ چکا۔