کالم

انڈیا میں ہندو مسلم گہری تقسیم سے پیدا ہوتے تین واقعات: ششی تھرور کی تحریر

اپریل 10, 2025 3 min

انڈیا میں ہندو مسلم گہری تقسیم سے پیدا ہوتے تین واقعات: ششی تھرور کی تحریر

Reading Time: 3 minutes

جب ایڈیٹر پوچھتا ہے کہ ’کیا تقسیم گہری ہو رہی ہے؟’، تو میں اپنے آپ کو ان افسردہ کن سانحات کے بارے میں فوری طور پر سوچتے نہیں پاتا جن کی وجہ سے یہ سوال ابھرے ہوں گے – یعنی فرقہ وارانہ فسادات، ہجومے کے تشدد اور گائے کی حفاظت، یا ان جیسے واقعات جنہوں نے ہمارے معاشرے کو نقصان پہنچایا ہے، اور نہ ہی حال ہی میں حجاب اور حلال گوشت، لاؤڈ سپیکر پر اذان جیسے تنازعات جو خود پیدا کیے گئے۔
میں بظاہر ہمارے ملک کی مسلم اقلیت کو پسماندہ رکھنے والے ان واقعات پر سوچنے کے بجائے ایسے سوال پر اپنے آپ کو تین معمولی کہانیوں کے بارے میں سوچتے پاتا ہوں جو حالیہ ہفتوں میں میری توجہ میں آئیں، جس نے میرے لیے اگرچہ کم واضح طور پر مگر معاشرے میں مذہب کی بنیاد پر تقسیم کو براہ راست کھول کر رکھ دیا۔

پہلا واقعہ: حال ہی میں جے پور میں، میری ملاقات ایک سنہرے بالوں والی لبنانی خاتون سے ہوئی جو 15 سال سے دستکاری اور زیورات کا سودا کرنے انڈیا آ رہی تھیں۔ بظاہر بطور غیرملکی ماضی میں اس کا پرتپاک استقبال کیا گیا تھا۔ جب وہ اپنا تعارف کراتے ہوئے اپنا نام نور بتاتیں تو لوگ کہتے کہ ’اوہ، کتنا پیارا نام ہے! ہمارے انڈیا میں بھی یہ نام ہے! ہم جانتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے ‘روشنی۔‘ آج، وہ کہتی ہیں، چیزیں بدل گئی ہیں۔ جب وہ مقامی لوگوں کو بتاتی ہیں کہ اس کا نام نور ہے، تو فوری طور پر جو ردعمل آتا ہے وہ ہوتا ہے: ’اوہ، تم مسلمان ہو؟‘ سوال، اور استفسار کا لہجہ سب بتا دیتا ہے۔ نور کو اب یقین نہیں ہے کہ وہ پہلے کی طرح ہی انڈیا آتی رہے گی۔

دوسرا واقعہ: ایک سابق انڈین سفیر جس نے اپنے کیریئر کے دوران پاکستان اور اسلام پسند دہشت گردی پر ایک غیرمعمولی نظر رکھنے والے کی حیثیت سے شہرت حاصل کی تھی، نے مجھے کابل میں اپنے ایک دوست اور نامور سرجن کے بارے میں بتایا۔ سرجن نے اپنے ملک میں طالبان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے گھبرا کر سفیر کی تجویز پر فیصلہ کیا کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کو انڈیا (پاکستان کو نہیں) بھیج دے تاکہ وہ بہتر زندگی گزاریں اور تعلیم حاصل کریں۔ افغان سرجن اپنے بیوی بچوں کو دوبارہ پیدا ہونے والی اسلامی بنیاد پرستی سے آزاد دیکھنے کا خواہشمند تھا۔
انہوں نے انڈیا کے گڑگاؤں میں ایک فلیٹ کرائے پر لیا، ایک اچھے سکول میں داخلہ لیا۔ لیکن ایک سال کے اندر انہیں احساس ہوا کہ یہ وہ انڈیا نہیں رہا جو سرجن نے یہ فیصلہ لیتے وقت سمجھا تھا۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ دھچکا اس وقت لگا جب ان کے اپارٹمنٹ کی عمارت میں بچوں نے کھیل کے دوران افغان سرجن کے بچوں کو اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہمارے والدین نے ہمیں کہا کہ آپ کے ساتھ نہ کھیلیں کیونکہ آپ مسلمان ہیں۔‘
میرے سفیر دوست نے صدمے اور مایوسی کے عالم میں کہا کہ اس کے بعد انہوں نے سرجن کو مشورہ دیا کہ ’اپنے بچوں کو دبئی یا لندن لے جاؤ۔ مجھے شرم آتی ہے کہ میں نے آپ کو اپنے ملک (انڈیا) میں ان کی پرورش کرنے کی ترغیب دی۔‘

تیسرا واقعہ: اقوام متحدہ میں ایک انڈین سفارتکار جو ایک تجربہ کار امن مذاکرات کار کے طور پر مشرق وسطیٰ کے بہت سے مشکل مقامات پر خدمات انجام دے چکے ہیں، انہوں نے خود کو ایک عرب ملک میں ایک اسلامی عسکریت پسند کے ساتھ ایک کشیدہ ملاقات کے دوران مشکل میں پایا۔
عسکریت پسند داڑھی، پگڑی اور کلاشنکوف کے ساتھ بیٹھا تھا۔ دونوں کے درمیان برف پگھکل چکی تھی۔ اگرچہ رمضان تھا، عسکریت پسند نے سگریٹ سلگایا اور اقوام متحدہ کے انڈین نژاد سفارتکار کو سگریٹ کی پیشکش کی، ایک کانٹے دار مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے ہنسی مذاق بھی کیا۔ پھر اس نے تقریباً اتفاق سے پوچھا: ’اور تم کہاں کے ہو؟‘ جب اقوام متحدہ کے اہلکار نے بتایا کہ ’انڈیا‘ تو عسکریت پسند کا موڈ فوراً بدل گیا۔ انڈیا؟ میں نے سنا ہے کہ تم وہاں مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہو، باہر نکل جاؤ، اقوام متحدہ کے آدمی، ورنہ تمہارے ساتھ جو ہونا ہے اس کا ذمہ دار میں نہیں ہوں گا۔‘
اقوام متحدہ کے اہلکار نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ عسکریت پسند کو غلط معلومات دی گئی ہیں، جیسا کہ اس کے ساتھ یورپی اقوام متحدہ کے اہلکار نے بھی کیا تھا، لیکن عسکریت پسند کو مطمئن نہیں کیا جا سکا۔ عرب عسکریت پسند نے کہا کہ اس کے ذرائع متعدد تھے: وہ عسکریت پسند ہو سکتا ہے، لیکن اس نے عالمی میڈیا کو پڑھا اور دیکھا۔ میٹنگ ختم ہو چکی تھی۔ اقوام متحدہ کے ساتھ کام کرنے والا انڈین نژاد سفارتکار پسینے میں بھیگ کر وہاں سے اُٹھ رہا تھا۔

ہاں، میں تجزیے کی حدود سے واقف ہوں۔ لیکن یہ تینوں غیرمتعلقہ اور ایک دوسرے سے منقطع واقعات، جو دو تین ہفتوں کے عرصے میں میرے علم میں آئے، اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں فرقہ وارانہ تفریق کس حد تک گہری ہو چکی ہے۔

(انڈیا ٹوڈے سے ترجمہ)

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے