ترک افواج شام میں داخل
Reading Time: 2 minutesترک افواج شام میں داخل ہوگئی ہیں اور ترک صدر رجب طیب اردوغان نے کہا ہے کہ کرد جنگجوؤں کو بہت جلد کچل دیا جائے گا ۔ ترک وزیراعظم بن علی یلدرم نے کہا ہے کہ ترکی کی زمینی افواج شام کے شمالی حصے میں داخل ہو گئی ہیں جس کا مقصد سرحدی علاقے سے کرد جنگجوؤں کا خاتمہ ہے ۔ بن علی یلدرم نے کہا کہ اس کارروائی کا مقصد شام کے اندر 30 کلو میٹر گہرا محفوظ زون قائم کرنا ہے۔ ترک سرکاری خبر رساں ایجنسی اناتولو کے مطابق اس کی افواج نے پہلے ہی شام کے علاقے میں پانچ کلومیٹر پیش قدمی کی ہے۔
شام کے صدر بشار الاسد نے ترکی کی اس کارروائی کی مذمت کی ہے جبکہ فرانس کے وزیرِ خارجہ ژاں ایو دریاں نے کہا ہے کہ وہ اس مسئلے پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلائیں گے۔ ترکی نے شام میں کرد ملیشیا کے خلاف کارروائی پر بین الاقوامی تنقید کو مسترد کر دیا ہے اور نیٹو میں ترکی کے نمائندے احمد بیرات نے کہا ہے کہ نیٹو اراکین ترکی کی جانب سے اس حملے کی حمایت کریں۔ احمد بیرات کا کہنا تھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی اگر ترکی کے اقدامات کی مخالفت کرتے ہیں تو انہیں نیٹو کے لیے اپنی رکنیت پر دوبارہ غور کرنا چاہیے۔ ترک نمائندے کا کہنا تھا کہ واشنگٹن کی جانب سے دولتِ اسلامیہ کے خلاف وائی پی جی کو اتحادی بنانا ترکی کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔
دوسری جانب کرد ملیشیا وائی پی جی نے دعوی کیا ہے کہ اس نے عفرین شہر میں ترک افواج کو پیچھے دھکیل دیا ہے اور وہ ترکی کے سرحدی علاقوں پر گولہ باری کر رہی ہے ۔ واضح رہے کہ ترکی وائی پی جی کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے لیکن شام میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ میں اس تنظیم کو امریکی اتحاد کی حمایت حاصل ہے۔ ترک شام کے علاقے عفرین سے کرد جنگجوؤں کا انخلا چاہتا ہے جو کہ سنہ 2012 سے کردوں کے کنٹرول میں ہے۔