پچیس برس کی کشمکش (آخری حصہ)
Reading Time: 9 minutesان کے لہجے میں اس صحرائی مسافر جیسا کرب تھا جسے تپتی دھوپ اور ناپید پانی سے زیادہ سفر کی تنہائی سے شکوہ رہا ہو۔ یا اس رہبر جیسی اداسی جس کے ساتھی اس کے ساتھ چل تو رہے ہوں لیکن منزل سے متعلق اس جیسا یقینِ کامل نہ رکھتے ہوں اور اسے بار بار انہیں سمجھانا پڑتا ہو کہ سراب کے سات سمندر پار اس نخلستان کی کھجوریں پک کر تیار ہو چکیں اور ٹھنڈے پانی کے چشمے ہماری راہ تک رہے ہیں، بس تھوڑا سا سفر اور ! وہ ایک بار پھر بولے تو یوں لگا جیسے پردیس میں اچانک مل جانے والے کسی ہم زبان سے بات کر رہے ہوں
"میری حکمت عملی میں ملک کے قانون اور اس کے اداروں کی بڑی اہمیت ہے۔ میں قانون کے خلاف نہیں جاتا۔ ہر قدم اٹھانے سے پہلے یہ معلوم کرتا ہوں کہ اس حوالے سے قانونی تقاضے کیا ہیں۔ جب میں نے لاہور میں جامعۃ الرشید کا کیمپس قائم کرنے کا فیصلہ کیا تو وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے ملا۔ ان کے سٹاف نے ہمیں 20 منٹ دلوائے۔ میں نے گزارش کی کہ 20 منٹ کی تو ہماری ڈاکومنٹری ہے۔ اس کے بعد ہمیں بات بھی کرنی ہے۔ انہوں نے وقت میں اضافہ کردیا۔ ہم نے پروجیکٹر پر کراچی میں اپنا اب تک کا کام اور مستقبل کے منصوبے پیش کئے جو شہباز شریف نے پوری توجہ سے دیکھے اور سنے۔ جب وہ دیکھ چکے تو میں نے ان سے کہا، لاہور آتے ہوئے میں نے جہاز کی کھڑکی سے لاہور شہر دیکھا، یہ شہر بہت ہی خوبصورت اور بہت ہی شاندار ہے لیکن اس میں ایک چیز کی کمی بہت شدت سے محسوس ہوئی۔ شہباز شریف نے چونک کر پوچھا "وہ کیا ؟” میں کہا، مجھے لاہور میں جامعۃ الرشید کہیں نظر نہیں آیا، یہاں جامعۃ الرشید کی کمی ہے۔ شہباز شریف نے کہا، ہم لاہور میں جامعۃ الرشید کے قیام میں مکمل تعاون کے لئے تیار ہیں، یہ ایک شاندار آئیڈیا ہے اور یقینا لاہور میں جامعۃ الرشید کی کمی نہیں ہونی چاہئے۔ بتایئے ہم سے آپ کو کیا چاہئے ؟ ہم آپ کو زمین دے سکتے ہیں۔ میں نے کہا، زمین چاہئے نہ ہی پیسہ، زمین ہمارے پاس 20 ایکڑ موجود ہے اور وسائل بھی ہیں، آپ سے صرف اجازت مطلوب ہے کیونکہ ہم حکومتی اجازت کے بغیر پروجیکٹ شروع نہیں کرتے۔ شہباز شریف نے ہمیں اسی وقت اجازت دیدی اور آج الحمدللہ لاہور میں جامعۃ الرشید کے منصوبے پر کام جاری ہے۔ میں محض اجازت کے لئے شہباز شریف کی سطح تک اس لئے گیا تاکہ وہ خود ہمیں دیکھ اور سن لیں، کل کو کوئی انہیں کسی غلط فہمی میں مبتلا کرنے کی کوشش نہ کر سکے۔ اب ایک اور پہلو بھی دیکھیں، بعض لوگ یا تو ہمیں ٹی ٹی پی کی طرف منسوب کرتے ہیں یا ٹی ٹی پی کو ہماری طرف منسوب کر دیتے ہیں جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ٹی ٹی پی مجھ پر چار بار حملے کی کوشش کر چکی ہے۔ خاص طور پر حکیم اللہ محسود کو تو مجھ سے خاص عناد رہا”
مجھے 2010ء کا ایک واقعہ یاد آیا تو سوچا تصدیق کر لوں۔ میں نے پوچھا
"کیا یہ درست ہے کہ 2010ء میں خود کش بمبار آپ کے آفس تک پہنچ گیا تھا اور وہ آپ کے سامنے بیٹھا کسی بھی لمحے پھٹنے کو تیار تھا ؟”
مسکراتے ہوئے بولے
"جی بالکل ! یہ واقعہ ہوا تھا اور خود کش بمبار کو ہمارے ایک استاذ نے ہی یہاں اپنے گھر پر قیام کروایا تھا اور اسی کی مدد سے میرے دفتر تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ ٹی ٹی پی ہماری جان کی دشمن بنی پھر رہی تھی اور لوگ اسے منسوب ہی ہم سے کر رہے تھے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جب ضرب عضب شروع ہوا تو میں نے ایک اعلیٰ فوجی افسر کے ذریعے جنرل راحیل شریف کو یہ پرپوزل بھیجا کہ آپ ہمیں وزیرستان میں جامعۃ الرشید کے قیام کی اجازت دیدیں، ایک بار یہ ادارہ قائم ہوجائے تو یہ ایسا ادارہ ہے جو علی گڑھ اور دیوبند یعنی دین اور دنیا کا امتزاج ہے۔ ملا اور مسٹر کے بچے جب ایک چھت تلے تعلیم کے لئے جمع ہوں گے تو اس علاقے کا سارا فساد ختم ہوجائے گا۔ جنرل راحیل شریف نے اصولی طور پر اس منصوبے سے اتفاق کیا لیکن بات آگے نہیں بڑھ سکی اور وہ ریٹائر ہوگئے۔ اگر یہ ہوجائے تو میں یقین سے کہتا ہوں کہ اس علاقے میں علم کی زبردست روشنی پھیلے گی اور تاریکیاں چھٹ جائیں گی کیونکہ ہمارا تعلیمی نظام بہت مضبوط ہے۔ ہم ایسے علماء تیار کر رہے ہیں جن کی دنیا کی تین زبانوں پر مکمل گرفت ہو۔ اردو، عربی اور انگریزی کو ہم یکساں اہمیت دے رہے ہیں، اپنے علماء کو ماڈرن ایجوکیشن سے آراستہ کر رہے ہیں، ہمارے مفتیانِ کرام کے لئے جو نصاب ہم نے تشکیل دیا ہے اس میں ملکی و بین الاقوامی قوانین کورس کا حصہ ہیں۔ ہم صرف ڈومیسٹک ہی نہیں کارپوریٹ لاء بھی پڑھا رہے ہیں۔ ہم نے صرف اس چیز پر توجہ نہیں دی کہ آج کا عالم دین ماڈرن ایجوکیشن سے آراستہ ہو تاکہ آج کے چیلنجز کو سمجھ سکے اور ان کا مقابلہ کر سکے بلکہ ہم نے پروفیشلز کو بھی دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کا انتظام کر رکھا ہے۔ یہاں دورہ حدیث اور ایم بی اے کی تعلیم شانہ بشانہ چل رہی ہے۔ ہم نے پروفیشنلز کے لئے بھی علومِ دینیہ کا چار سالہ نصاب تشکیل دیا ہے کہ اگر کوئی وکیل، ڈاکٹر، انجینئر یا بزنس ایڈمنسٹریشن کا ماہر دینی تعلیم حاصل کرنا چاہے تو کرسکے۔ ہمارے نیو کیمپس کی بیسمنٹ میں ہم طلبہ کے لئے تمام انڈور گیمز کا انتظام کر رہے ہیں جبکہ اس کی وسیع و عریض چھت پر آؤٹ ڈور گیمز کا حیرت انگیز آئڈیا سامنے لا رہے ہیں، طلبہ کے لئے سویمنگ پولز بنا رہے ہیں، ایک سویمنگ پول اس وقت بھی ہے لیکن یہ ناکافی ہے، اب ہم بہت بڑا بنا رہے ہیں۔ اس نیو کیمپس میں ہم ایک ایسا عظیم الشان آڈیٹوریم تعمیر کرنے جا رہے ہیں جس میں 16 ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہوگی اور یہ کسی بھی ورلڈ کلاس آڈیٹوریم کی طرح ہر سہولت سے آراستہ ہوگا”
اس نشست کے بعد وہ باہر لان میں بیٹھے جامعہ کے اساتذہ سے ملوانے لے گئے جو بڑی گرم جوشی اور خندہ پیشانی سے ملے۔ مفتی صاحب نے محدود نشست کے لئے استعمال ہونے والے ساؤنڈ سسٹم پر اساتذہ سے فرمایا۔
"مولانا رعایت اللہ فاروقی میری دعوت پر جامعہ آئے ہیں۔ ان کی اور ہماری فکر میں 80 فیصد مطابقت پائی جاتی ہے۔ جہاں تک باقی 20 فیصد کا تعلق ہے تو یہ بات دنیا بھر میں بزنس ایڈمنسٹریشن کے اسباق میں پڑھائی جاتی ہے کہ دو افراد میں زیادہ سے زیادہ 80 فیصد ہی ذہنی ہم آہنگی ہو سکتی ہے۔ ایک بھرپور ہم آہنگی رکھنے والا بھی 20 فیصد آپ سے غیر متفق ہی ہوتا ہے۔ جب ہماری اور ان کی سوچ میں 80 فیصد مطابقت پائی جاتی ہے تو پھر ہمیں ذہنی ہی نہیں عملی طور پر بھی ایک پیج پر ہونا چاہئے۔ ہمارے میل جول میں رکاوٹیں نہیں ہونی چاہئیں اور ہمیں ایک دوسرے سے استفادہ کرنا چاہئے”
ممکن ہے میرا اندازہ غلط ہو لیکن ان کے لہجے اور باڈی لینگویج سے میں نے یہ تاثر اخذ کیا جیسے وہ اپنے رفقاء کو ایک لاؤڈ اینڈ کلئیر میسج دے رہے ہوں۔ اسی نشست میں میرے سپر فیوریٹ محترم مفتی محمد صاحب بھی موجود تھے۔ ان سے بھی بیس پچیس برس کا تعلق ہے لیکن اس تعلق کی خاص بات یہ ہے کہ ان سے میرے تعلق کی نوعیت ہمیشہ ہی بہت احترام والی رہی۔ ان سے شفقت اور محبت کے سوا کچھ نہ ملا اور میرا دل ہمیشہ ان کے بے پناہ احترام سے لبالب رہا۔ مفتی صاحب کے حکم پر مجھے جامعہ کے مختلف شعبوں کا دورہ بھی کرایا گیا اور وہاں ہونے والی سرگرمیوں کی تفصیلات سے آگہی فراہم کی گئی۔ یہ سب میرے لئے نہایت حیران کن تھا۔ میں کراچی کے علماء سے یہ سنتا آیا تھا کہ جامعۃ الرشید بہت ماڈرن خطوط پر کام کر رہا ہے لیکن مولوی جب "ماڈرن” لفظ استعمال کرتا ہے تو اس کا کل مطلب یہی دیکھنے میں آتا رہا ہے کہ مولوی کمپیوٹر بھی استعمال کر لیتا ہے۔ یہ بات بھی سن رکھی تھی کہ یہاں باقاعدہ جدید تعلیم دی جاتی ہے مگر ماضی کے کچھ ناکام تجربات ذہن میں تھے سو خیال یہی تھا کہ یہ بھی انہی میں ایک نیا اضافہ ہونے جا رہا ہوگا۔ بطور مثال حب ریور روڈ پر 70 کی دہائی میں قائم ہونے والا "تبلیغی کالج” ہی دیکھا جا سکتا ہے جو شائد اس ملک میں مولوی کو ماڈرن ایجوکیشن دینے کی پہلی کوشش تھی اور یہ بری طرح ناکام ہوئی تھی۔ مغرب کی نماز کے بعد مہمان خانے میں چوتھی نشست ہوئی جس میں مفتی صاحب نے جامعہ کے ایک سابق طالب علم کے حوالے سے بتایا کہ ان کا اساتذہ سے رویہ خراب ہونا شروع ہوا تو ہمیں تشویش ہوئی کہ اتنے قابل اور شائستہ بچے کے اخلاق میں یہ تبدیلی کہاں سے آ رہی ہے۔ کچھ دن بعد اساتذہ نے بتایا کہ یہ رعایت اللہ فاروقی کی صحبت اختیار کر چکا ہے، ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے اس بچے کے اخلاق بگڑے ہیں۔ میں نے مفتی صاحب سے اس بچے کا نام پوچھا، جب انہوں نے بتایا تو میری ہنسی چھوٹ گئی کیونکہ اس بچے کی مجھ سے صرف ایک ملاقات ہوئی ہے وہ بھی پندرہ بیس طلبہ کے گروپ کے ساتھ اور سب سے اہم بات یہ کہ میں خود اسے بداخلاقی ہی کے سبب بلاک بھی کئے بیٹھا ہوں۔ میں نے مفتی صاحب کو اس بات سے آگاہ کیا تو وہ بہت حیران ہوئے۔ اسی طرح میرے متعلق انہیں ایک اور بات یہ بتائی گئی تھی کہ میں خدا نخواستہ غامدی مکتب فکر سے وابستگی اختیار کر چکا ہوں۔ اس حوالے سے مفتی صاحب نے بتایا کہ جب فیس بک پر آپ کی جانب سے غامدی مکتب فکر کے خلاف سخت تحریریں آنی شروع ہوئیں تو میں نے ان احباب سے پوچھا
"آپ لوگ تو کہتے تھے کہ وہ غامدی مکتب فکر کے آدمی ہیں ؟”
تو کسی کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ ان دونوں واقعات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جب باہمی رابطے نہ ہوں تو عجیب عجیب غلط فہمیاں جنم لے لیتی ہیں۔ عشاء کے قریب ہم رخصت ہونے لگے تو مفتی صاحب مفتی ابولبابہ کی کلاس میں ان سے ملانے لے گئے۔ چونکہ کلاس جاری تھی اس لئے صرف مصافحہ ہوا اور مفتی صاحب نے ان سے اتنا فرمایا
"فاروقی صاحب کو آج میں نے مدعو کیا تھا اور ان کی محبت ہے کہ یہ میری دعوت پر تشریف لائے۔”
وہ گاڑی تک ہمیں چھوڑنے آئے اور ہم بہت ہی شاندار یادیں لے کر وہاں رخصت ہوئے۔
جہاں تک شامی مہاجرین کا تعلق ہے تو اس حوالے سے میرا موقف اب بھی وہی ہے جو اس ملاقات سے قبل تھا۔ میری یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ دیوبندی جس قدر جلد ممکن ہو عسکریت سے مکمل طور پر باہر آئیں اور یہ رائے آج قائم نہیں ہوئی بلکہ اسی جامعۃ الرشید میں 2009ء میں خاص اس مسئلے کے حوالے سے میں مفتی محمد صاحب سے ملا تھا اور ان سے بہت زور دے کر یہ درخواست کی تھی کہ دیوبندی مکتب فکر جتنا جلد عسکریت سے نکلے گا اتنی ہی بچت ہوگی، اگر اس معاملے میں تاخیر کی گئی تو دو چیزوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پہلی یہ کہ دیوبندیت کو ملک میں فساد کا تنہاء ذمہ دار قرار دیدیا جائے گا اور رائے عامہ اس کی تائید کرے گی۔ اگر ہم غور کریں تو ابھی دس بارہ روز قبل ہی یہ کوشش فیس بک پر ہو چکی جو ناکام ہوئی۔ اور دوسری یہ کہ ایک زبردست فوجی آپریشن کے ذریعے عسکریت کو کچلا جائے گا۔ پورے ملک میں چن چن کر دیوبندی مارے جائیں گے اور یہ غلط نہیں ہوگا کیونکہ عسکریت کے کلیدی ذمہ دار ہم ہی ہیں، ایک بار نوبت آپریشن کی آ گئی تو پھر اس کی حمایت ہی واحد آپشن ہوگا۔ لھذا وقت تیزی سے ہاتھ سے نکل رہا ہے یہ نوبت آنے سے قبل اس مسئلے کو پرامن اور علمی طور پر حل کرنے کی راہ ڈھونڈنی چاہئے۔ مفتی محمد صاحب کو یاد ہوگا کہ اس حوالے سے میں نے ایک تجویز بھی دی تھی اور چونکہ یہ ٹی ٹی پی کو چیلنج کرنے والی تجویز تھی جس میں جان سے ہاتھ دھونے کا سو فیصد نہیں تو 90 فیصد تو پکا امکان تھا سو میں نے پیشکش کی تھی میں اپنی جان داؤ پر لگانے کو تیار ہوں بس آپ اپنے حصے کا کام کرکے دیدیں۔ افسوس کہ اس معاملے پر پیش رفت نہ ہو سکی اور نوبت اسی فوجی آپریشن کی آئی جو اس وقت بھی جاری ہے اور جسے میری بھی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اگر مفتی محمد صاحب نے اس ملاقات کا ذکر مفتی عبدالرحیم صاحب سے نہیں کیا تو میری درخواست ہے کہ وہ ان سے یہ تفصیلات معلوم کر لیں تاکہ وہ جان سکیں کہ عسکریت سے مکمل علیحدگی کے حوالے سے میرے موقف میں ایک تسلسل ہے اور اس حوالے سے میں غیر مبہم اور دو ٹوک موقف رکھتا ہوں۔
مفتی عبدالرحیم اور ان کی ٹیم ایک شاندار تعلیمی انقلاب کا امکان پیدا کرچکی ہے اس ٹیم کو تعلیمی میدان کے سوا کسی بھی دوسرے میدان میں اپنی توانائی صرف کرنے سے گریز کرنا چاہئے خواہ وہ میدان مہاجرین کی دیکھ بھال کا ہی کیوں نہ ہو۔ مہاجرین کے کیمپ ہی عسکریت پسندوں کے اصل گڑھ ہوتے ہیں، یہیں سے عسکریت کے نظر نہ آنے والے ہیڈ کوارٹر کام کرتے ہیں۔ اس پس منظر کے سبب اگر ہمارا کوئی فرد یا تعلیمی ادارہ عسکری مہاجرین کے کیمپوں میں جائے گا تو یہ نئے خطرات جنم نہ بھی دے تو اس فرد اور ادارے کو مشکوک ضرور کرے گا اور جب ادارہ جامعۃ الرشید جیسا ہو جس کا افغان اور کشمیری مجاہدین سے مضبوط ریلیشن رہا ہو تو یہ شکوک مزید بڑھ جاتے ہیں۔ سو جامعۃ الرشید کے اس وزٹ کے بعد میری اس رائے میں مزید پختگی آگئی ہے کہ جامعۃ الرشید کی تعلیم کے علاوہ کوئی سرگرمی نہیں ہونی چاہئے، پورا عالم اسلام صدیوں سے علمی مہاجرت کی زندگی گزار رہا ہے، جامعۃ الرشید کو عسکری مہاجرین کی نہیں بلکہ علمی مہاجرین کی ہی فکر کرنی چاہئے جو پاکستان میں ہی کروڑوں کی تعداد میں بکھرے پڑے ہیں۔ یہاں یہ وضاحت بلکہ صراحت ضروری ہے کہ عسکریت سے دستبرداری کا مطلب مظلوموں کی حمایت سے دستبرداری ہرگز نہیں۔ ہمیں افغان طالبان، کشمیری حریت پسندوں اور فلسطین کے مظلوموں کی بھر پور حمایت جاری رکھنی ہے لیکن یہ سیاسی و فکری میدان میں ہوگی، عسکری میدان میں ہرگز نہیں۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ عسکریت کا راستہ تباہی کا راستہ ہے۔ ہمیں خود کو بار بار یاد دلانا ہوگا کہ جب 1857ء کی جنگ آزادی کی صورت عسکریت ناکام ہوئی تو اس کے نتیجے میں ہمارے بڑوں نے دارالعلوم دیوبند کی صورت تعلیمی اور فکری تبدیلی کی راہ اختیار کی اور جب دیوبند علماء کی پہلی نسل تیار کر چکا تو برٹش سامراج کے خلاف سیاسی مزاحمت کی راہ ہی اختیار کی گئی اور وہی راہ کامیاب ثابت ہوئی۔ میں اس رائے کو درست تسلیم نہیں کرتا کہ سیاسی راستے سے تبدیلی رونما نہیں کی جا سکتی۔ اس راہ سے تبدیلی رونما کرنا عین ممکن ہے لیکن ہمیں جلد بازی اور انتقام کی حکمت عملی سے بچنا ہوگا۔ ہمارے سامنے دو مثالیں ہیں۔ ایک مصر کی جو جلد بازی کے سبب ناکام ہوئی اور دوسری ترکی کی جو حکمت اور دانائی سے بھرپور تھی سو یہ اس شاندار کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہے کہ ایک زبردست بغاوت بھی اس کی راہ نہ روک سکی۔ دنیا پر لبرلزم کا کنٹرول ہے، لبرلزم کے مائی باپ کبھی نہیں چاہیں گے کہ مذہبی ریاست کا تصور کامیاب ہو۔ وہ اسے ناکام کرنے کے نت نئے طریقے ڈھونڈیں گے۔ اس کے تدارک کے لئے ہمارے پاس وہ اعلیٰ پائے کی سیاسی دانائی ہونی چاہئے جو ان سازشوں کو ناکام کر سکے۔ اگر ہم دانائی کا مظاہرہ نہیں کرتے اور وہ ہمارے خلاف کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ سیاسی راہ سے تبدیلی ممکن نہیں بلکہ یہ ہوگا کہ ہم نالائق ہیں ! (ختم شد)