کالم

بے لباسوں کا ساحل

اپریل 25, 2017 5 min

بے لباسوں کا ساحل

Reading Time: 5 minutes

مطیع اللہ جان

کہا جاتا ہے پوری دنیا میں ایسے سمندری ساحل ہیں جہاں صرف بے لباس لوگوں کو گھومنے پھرنے کی اجازت ہے مگر وہاں بھی کچھ اصول، قوائد و قوانین ہوتے ہیں مثلاً گھورنا منع ہے، تصویر کشی اجازت کے بغیر نہیں، کھلے عام قربت کی حدود مقرر ہیں اور ہمارے لیے شاید یہ مذاق ہی ہو مگر وہاں پر بے لباس شخص بھی "پرائیوسی” یعنی حق پوشیدگی کا دعویدار بھی ہوتا ہے۔ یہاں اس سے مراد ایک دوسرے کی سرگرمیاں اور مصروفیات میں بلا اجازت مداخلت نہ کرنا ہوتا ہے۔مگر یہی لوگ جب ساحل کی حدود سے باہر قدم رکھتے ہیں تو پھر ان کا یوں بے لباس رہنا جرم تصور ہوتا ہے۔ "خوش قسمتی” سے ہمارے ہاں سمندر تو ہے مگر ایسا کوئی ساحل نہیں تاہم ہمارے معاشرے میں تخیل کی پرواز اتنی اونچی ہے کہ دشمنی، ناراضگی اور غصے میں ہم مخالفین کی شخصیت کا ایسا نقشہ کھنچتے ہیں جو یورپ کے ان بے لباس ساحلوں کا منظر پیش کرتا ہے۔ یہ بے لباسی سیاسی، معاشرتی اور انتظامی کارکردگی سے شروع ہو کر ہمارے آئینی اداروں اور محکموں پر جا کر رکتی ہے۔ مگر شاید یورپ کے ساحلوں کی طرح ہم نے یہاں بھی اس بے لباسی پر شرمندہ ہونا چھوڑ دیا ہے اور بڑی ڈھٹائی اور بے حیائی سے نہ صرف لوٹ مار جاری ہے بلکہ اس معاملے میں شور شرابے کے ساتھ چوک چوراہے میں ایک دوسرے کے کپڑے بھی اتار رہے ہیں۔
اب تو یہ شور شرابہ کسی میلے کی رونق لگنا شروع ہو گیا ہے۔ حتیٰ کے چند ادارے بھی اپنے آپ کو دیکھنے کی بجائے دوسروں کو ننگا قرار دے رہے ہیں۔ شاید احتساب کا عمل ایسا ہی ہوتا ہے۔ ادارے اور افراد ایک دوسرے کی کوتاہیوں اور جرائم کو ایسے ہی بے نقاب کرتے ہیں مگر پھر بے لباس آدمی کا بے نقاب ہونا کیا معنی رکھتا ہے۔ ملزمان کی اس بھیڑ میں مجرم کی تلاش ناممکن سی لگتی ہے۔ اور پھر بے لباسی پر شرمندگی تو دور کی بات لوگ محض سر پر اونچی پگڑی اور بالوں کو تیل لگا کر مانگ بنا کر اسے فیشن بتا تے ہیں۔ اس سیاسی اور معاشرتی عریانی کا مظاہرہ افراد کے ساتھ اداروں نے بھی شروع کر رکھا ہے۔ کرپشن کا ایک سمندر ہے جس کے ساحل پر ننگ دھڑنگ لوگ دندناتے پھر رہے ہیں، مختلف ٹولیاں ہیں جو اپنے اپنے مخالفین کو اکیلا کر کے اس کی بے لباسی کا اس سے حساب مناگتے ہیں۔ جو ٹولی سے علیحدہ ہو گیا یا کمزور ٹولی کا نکلا اس کا حساب ہو گیا۔ اس ساحل پر بے لباس لیٹی عام عوام اس وقت ایک ناول پڑھ رہی ہے جس کا عنوان ہے "گاڈ فادر” کہانی کا ایک کردار جو ایک مافیا کا سربرا ہ ہے اور جس کا ماننا ہے کہ ہر دولت مند انسان کے پیچھے جرم کی ایک داستان چھپی ہوتی ہے۔
گاڈ فادر عوام کا ایک پسندیدہ کردار ہے اور اب تو عوام اپنی حقیقی زندگی میں بھی ایسے کردار کو قریب سے دیکھنے کی آرزو رکھتے ہیں۔ اس ناول اور اسکے کردار کی مشہوری کی وجہ حال ہی میں آنے والا ایک عدالتی فیصلہ بھی ہے۔ ایسے کردار اگر حقیقی زندگی میں نظر آجائیں تو لوگ عدالتی فیصلوں کو نہیں بلکہ ناول کے کردار کو اہمیت دیتے ہیں۔ اگر کبھی ہمارے اس ساحل سمندر پر ایک طرف ناول نگار ماریو پوزو "گارڈفادر” کے روپ میں کھڑا ہو اور دوسری طرف اس ناول کے ہیرو کو نااہل قرار دینا والا کوئی منصف تو ناول پڑھنے والوں کا انتخاب کون ہو گا۔ اب اختلافی نوٹ کے بعد تو زیادہ سے زیادہ لوگ وہ ناول پڑھنا چاہیں گے۔ واضح رہے وہ اختلافی نوٹ ناول کی صورت بازار میں نہیں آیا۔ لوگوں کو تو صرف یہ بتایا گیا ہے کہ ان کے منتخب لیڈر کسی ناول کے بہت مشہور کردار کی مانند ایک طاقتور شخص ہے جو لندن کے چار فلیٹوں کا حساب نہیں دے سکا۔ یعنی اگر وہ لندن کے چار فلیٹوں کا حساب دے دیتا تو شاید وہ کوئی جج بننے کا اہل ہو جاتا۔ صرف چار فلیٹوں کا مسئلہ اور گارڈ فادر کا رتبہ؟ یہ تو ماریو پوزو اور اس کے ناول کے کردار کے ساتھ زیادتی ہے۔ بے لباسوں کے ساحل پر ہونے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ آپ ایسی زیادتی کریں، اور کچھ نہیں تو اپنے ناول کے کردار کا کچھ معیار ہی مقرر کر لیا ہوتا۔
یہ اور بات ہے کہ گارڈ فادر کا کردار ہمارے آئین میں درج معیار کے مطابق صادق اور امین نہیں تھا اور بقول آپ کے ہمارے منتخب وزیر اعظم بھی صادق اور امین نہیں ہیں اس لیے اس فیصلے میں اس ناول کی آمیزش ضروری تھی۔ بظاہر وزیر اعظم کو ایک اور موقع دینے والوں کی تحریر بھی اس زبان سے مختلف نہیں لگتی کہ کوئی پولیس افسر ماتحت سپاہی کو برطرفی کی بجائے محض ڈانٹ ڈپٹ کیلئے استعمال کرتا ہے جس میں اسکی شخصیت اور کردار کے پہلوﺅں کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ باہر آ کر بے شک کہا جائے کہ صاحب نے اندر چائے پلائی تھی۔ بار بار دھیان ذولفقار علی بھٹو کی شخصیت پر جاتا ہے کہ اگر بھٹو سے متعلق یہ زبان استعمال کی گئی ہوتی تو کیا وہ بھی مٹھائیاں بانٹتا اور کھاتا۔ کم از کم جب جنرل مشرف جیسے فوجی آمر کو وردی نہیں الیکشن لڑنے کی اجازت دی جا رہی تھی یا پھر مشرف پر آئین سے سنگین غداری کے الزام کی تحقیقات اور اصغر خان کیس میں آئی ایس آئی کے فنڈز کی تقسیم کے اعلی حکام کے اعترافات پر بھی ایک ایسی جے آئی ٹی بنانی چاہیے تھی یا (اب بھی بن سکتی ہے) جس کی کارکردگی رپورٹ ہر دو ہفتے بعد سپریم کورٹ میں پیش کی جاتی۔
اپوزیشن جماعتیں بھی اپنی بے لباسی پر نازاں ہیں۔ جے آئی ٹی میں فوج کے خفیہ اداروں آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے نمائندوں کی موجودگی کا جو حکم سپریم کورٹ نے دیا ہے وہ سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ پارلیمنٹ بھی ایک آئینی ترمیم کی ذریعے اعلی ججوں کے خلاف انضباطی کارروائیوں کا اختیار رکھنے والی سپریم جوڈیشل کونسل میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندوں کو شامل کر دے۔ سیاسی خوداری کا عالم یہ ہے کہ حکمرانوں اور ان کی جماعت کو ان فوجی افسروں کے سامنے پیش ہو کر اپنی مبینہ کرپشن کا جواب دینے پر کوئی اعتراض نہیں۔ ججوں نے بھی موجودہ سول ملٹری توازن اور ڈان لیکس کی تحقیقات کے دوران ایسا حکم دے کر ان قوتوں کو مضبوط کیا ہے جن کے باعث سیاستدان جلا وطن ہو کر باہر کاروبار اور رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ غرض ایک عدالتی فیصلے میں محض کسی ملزم کو نہیں معاشرے کے تمام اہم کرداروں اور اداروں کو بے نقاب و لباس کر دیا ہے۔
اتنے عرصے تک عوام کا وقت اور پیسے ضائع کرنے کے بعد جو جے آئی ٹی آج بنی ہے وہ پہلے دن کیوں نہیں بن سکتی تھی۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ بڑے افسر نے اپنے ماتحت کی بے عزتی کر کے شکایتی عوا م کو مطمئن کرنا تھا اور مقصد ماتحت کو برطرفی سے بچانا تھا۔ اتنی بے عزتی کے بعد عوام بھی مطمئن ماتحت بھی مشکور اور بڑے افسر کی بھی واہ واہ ہو گئی۔
آخر پہلے دن ہی کمیشن کیوں نہیں بنا اور ایسے میں تین دو کا فیصلہ کیوں ضروری ہو گیا تھا؟ اس حوالے سے میری آٹھ جنوری کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی، نوائے وقت میں اسی جگہ شائع ہونے والی تحریر کا عنوان ہی "تین اور دو” تھا۔ یہ معلومات پر مبنی تحریر نہیں تھی بلکہ ایک کورٹ رپورٹر کی بہت ہی بنیادی سوجھ بوجھ کا معاملہ تھا۔
اس تحریر میں یہ بھی واضح کر دیا گیا تھا کہ عدالت نے کمیشن نہ بنا کر خود کو کیسے ایک ایسے منقسم فیصلے کے کونے میں دھکیل دیا ہے جہاں سے وہ حتمی انصاف سے زیادہ اپنی عزت بچانے کی فکرمیں ہو گی۔ اس تمام معاملے میں حکومت، اپوزیشن اور چند دوسری سیاسی قوتوں کا اہم کردار رہا ہے۔ اس تمام صورتحال میں ایک اختلافی نوٹ میں ناول کا حوالہ اور اکثریاتی فیصلے کی ابتداءاور انتہا میں تضاد ایک قدرتی امر تھا۔ آخر میں اپنے ساتھی سینئر صحافی اور معروف بلاگر وحید مراد کی تحریر سے ایک اقتباس جس میں اختلافی نوٹ سے کچھ ان الفاظ میں اختلاف کیا گیا ہے۔
"اگر کسی ایک ناول سے متاثر ہو کر فیصلے لکھے جانے لگے تو پھر ججوں کو فرانزکافکا کی وہ کہانی بھی پڑھنا ہو گی جو بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں لکھی گئی۔ ‘دی ٹرائل’ نامی یہ ناول زیر حراست ایک شخص کے بارے میں ہے جس کو سزا سنائے جانے کے بعد اپنے جرم کی تلاش کرنا پڑی”۔ وحید مراد کا اختلافی نوٹ اپنی جگہ مگر آخر میں ایک اعتراف کہ ہمارے ساحل پر بے لباسوں کی اکثریت کا ہجوم اتنا پڑا ہے کہ اندھا قانون بھی کامیاب وار کرے گا۔

بشکریہ نوائے وقت

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے