پاکستان

مشال کی بہنوں کے لیے تعلیم مشکل

مئی 17, 2017 2 min

مشال کی بہنوں کے لیے تعلیم مشکل

Reading Time: 2 minutes

عبدلوالی خان یونیورسٹی کے مقتول طالبعلم مشال خان کے والد نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ واقعے کے بعد علاقے میں مشال کی بہنوں کے لیے تعلیم جاری رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ سپریم کورٹ میں مشال قتل ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران عدالت سے یہ بھی استدعا کی کہ اگر ممکن ہو تو مقتول کی بہنوں کو اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں منتقل کر دیا جائے۔

 خیبر پختونخوا حکومت کے وکیل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ مشال خان کے قتل کے مقدمے کا حتمی چالان اگلے دو ہفتوں میں ٹرائل کورٹ میں پیش کردیا جائے گا۔ حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ویڈیو کے ذریعے ابھی تک اس مقدمے میں 57 افراد کی نشاندہی ہوئی ہے جبکہ 53 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ مشال خان پر گولیاں چلانے والے ملزم عمران نے اقبال جرم کر لیا ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اعترافی بیان پر کتنا انحصار کیا جا سکتا ہے؟ ڈی آئی جی مردان نے عدالت کو بتایا کہ ثبوتوں کی روشنی میں اقبالی بیان کافی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے حکومت کے وکیل سے پوچھا کیا کہ مشال خان کے قتل کا واقعہ صرف ایک دو روز میں تو نہیں ہوا بلکہ اس بارے میں کچھ عرصہ پہلے ایک مہم چلائی گئی تھی جس پر کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا۔ انھوں نے کہا کہ مقامی علاقے کی پولیس کو اس بارے میں تمام معلومات تھیں لیکن اُنھوں نے بھی اس کے سدباب کے لیے کوئی اقدام نہیں کیے۔ چیف جسٹس نے  حیرت کا اظہار کیا کہ ابھی تک یونیورسٹی کی انتظامیہ کے کردار کا تعین نہیں ہو سکا۔ ڈی آئی جی نے عدالت کو بتایا کہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کے کردار کا تعین ہو چکا ہے جس کے بارے میں رپورٹ حتمی چالان میں پیش کی جائے گی۔

مشال خان کے والد نے عدالت کو بتایا کہ جس وقت یہ واقعہ رونما ہوا اس وقت مقامی علاقے کے ڈی ایس پی اور ایس ایچ او موقعے پر موجود تھے لیکن اُنھوں نے نہ تو ملزمان کو روکنے کی کوشش کی اور نہ ہی ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پولیس اور یونیورسٹی کی انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت پر اُن کے خلاف محکمانہ کارروائی نہ ہونا بھی کسی سنگین جرم سے کم نہیں ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ خوداحتسابی کے عمل کے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انصاف فراہم کرنے سپریم کورٹ کا فرض ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اسلامی معاشرے میں ایسے واقعات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مشال کے والد کے وکیل نے سپریم کورٹ سے اس مقدمے کو اسلام آباد منتقل کرنے کی استدعا کی جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مقدمے کی منتقلی کا طریقہ کار قانون میں درج ہے۔

 

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے