پاکستان

ڈاکٹر عاصم کی بیماری سپریم کورٹ میں

جولائی 14, 2017 3 min

ڈاکٹر عاصم کی بیماری سپریم کورٹ میں

Reading Time: 3 minutes

سپریم کورٹ کے جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں بنچ کے سامنے ڈاکٹر عاصم کے بیرون ملک جانے اور نیب کی جانب سے ان کی ضمانت منسوخی کے مقدمے میں کلریکل غلطی سے نوٹس دوبارہ جاری کرنا پڑ گیا۔
عدالت عظمی کے تین رکنی بنچ کے سامنے ڈاکٹر عاصم کا نام ایگزٹ کنٹرول فہرست سے نکالنے کی اپیل کی سماعت کے دوران احتساب بیورو کے وکیل نے کہاکہ پہلے ضمانت منسوخی کی اپیل سن لی جائے۔سندھ ہائیکورٹ نے ڈاکٹر عاصم کو ضمانت مقدمے کے تمام پہلو دیکھے بغیر دی۔ نیب وکیل کاکہناتھاکہ ڈاکٹر عاصم کا علاج پاکستان میں بھی ممکن ہے، کراچی کے ہسپتال اور ڈاکٹرز میں سے کوئی بھی ایسی رپورٹ دینے کیلئے تیار نہیں جو ڈاکٹر عاصم کے حق میں نہ ہو۔ وکیل نے کہاکہ ایک ہسپتال میں اس بیماری کے علاج کی ہرسہولت موجود تھی اور اس کی ویب سائٹ پر بھی اس کا ذکر تھا تاہم جب ڈاکٹرعاصم کے حوالے سے پوچھا گیا تو ہسپتال نے رپورٹ دی فی الوقت ان کے پاس اس سرجری کی سہولت دستیاب نہیں، وکیل نے کہاکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب اس ہسپتال نے اپنی ویب سائٹ سے بھی اس سہولت کا ذکر ختم کرکے ویب صفحے کو تبدیل کردیاہے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ اس بات کا تعین ہونا ضروری ہے کہ ڈاکٹر عاصم کو کیا مرض لاحق ہے، اورکیا ان کو کوئی بیماری ہے بھی یانہیں،جسٹس اعجاز کاکہناتھاکہ ایک رپورٹ میں ہے ڈاکٹر عاصم کو فزیوتھراپی کی ضرورت ہے جبکہ دوسرا ڈاکٹر رپورٹ دیتاہے کہ سائیکوتھراپی کرنا پڑے گی، اسی طرح دل کے عارضے کی بھی رپورٹ دی گئی ہے، ڈاکٹر عاصم کی بیماری جاننے کیلئے چاروں صوبوں کے ڈاکٹروں پر مشتمل میڈیکل بورڈ بھی تشکیل دیاجاسکتاہے۔ ڈاکٹرعاصم کے وکیل نے سندھ کی مختلف عدالتوں اور ہائیکورٹ نے ڈاکٹر عاصم کے طبی معائنے کیلئے دس مختلف ڈاکٹروں سے رپورٹ لی ہے، وکیل لطیف کھوسہ نے سپریم کورٹ کے مجوزہ میڈیکل بورڈ کی مخالفت کی اور کہاکہ اس طرح کی کوئی عدالتی مثال پہلے موجود نہیں۔ جس پر جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ڈاکٹر عاصم کے طبی معائنے کیلئے اب تک دس میڈیکل بورڈ تشکیل دیے جاچکے ہیں اس طرح کی بھی کوئی عدالتی مثال پہلے موجود نہیں تھی۔ نیب کے وکیل نے کہاکہ فردجرم عائد ہونے سے بچنے کیلئے ڈاکٹر عاصم مختلف بیماریوں کی شکایت کررہے ہیں، وکیل نے کہاکہ اس ملک میں جو بھی باہر گیاہے وہ واپس نہیں آیا، ایک ملزم سپریم کورٹ میں کمردرد کاکہہ کر علاج کیلئے گیا اور وہاں ناچتے ہوئے دیکھاگیا۔جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ سندھ کے تمام ہسپتال صوبائی حکومت کے زیر اثر ہیں، اس لیے ڈاکٹرز پر مشتمل آزاد میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ وکیل لطیف کھوسہ نے کہاکہ آزاد میڈیکل پر ڈاکٹر عاصم کو نہیں مجھے اعتراض ہے،عدالت ایسی روایات نہ ڈالے جو سب کیلئے خطرناک ہو۔ جسٹس اعجازنے کہاکہ جیل کے ذیادہ تر مریضوں کو ڈاکٹر عاصم والی بیماریاں لاحق ہوگی، ڈاکٹر عاصم کیلئے 10 میڈیکل بورڈز کے قیام کی روایت پہلے کبھی نہیں تھی، ڈیپرشن، بلڈپریشر اور شوگر کی بیماریاں عام ہیں، پاکستان میں سب کے ساتھ یکساں سلوک نہیں ہوتا، کئی قیدی جیل میں مر جاتے ہیں، جسٹس اعجازافضل کا کہنا تھا کہ جلدبازی میں کوئی حکم جاری نہیں کرنا چاہتے۔ نیب پراسیکوٹر نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم جیل سے ویل چیئر پر عدالت آتے تھے، جیل سے نکلتے ہی ڈاکٹر عاصم سیاسی جلسوں میں جانا شروع ہوگئے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ہر بڑے شخص کو میڈیکل بورڈ بیرون ملک علاج کی ہی تجویز دیتا ہے۔ وکیل لطیف کھوسہ نے کہاکہ اگر یہ ضمانت کا کیس نہیں تو پاکستان میں کوئی کیس ضمانت کا نہیں ہوسکتا،بیرون ملک ڈانس کرنے والے لیڈر کو پکڑتے وقت نیب کے پر جلتے ہیں۔ جسٹس منظورملک نے کہاکہ کھوسہ صاحب اپنے کیس تک محدود رہیں۔ کیس میں دلائل حتمی مرحلے میں داخل ہوئے تو معلوم ہوا کہ جس اپیل پر نیب کے وکیل دلائل دے رہے تھے اس پر ڈاکٹر عاصم کو عدالت نے نوٹس ہی جاری نہیں کیا تھا، جبکہ گزشتہ سماعت پر جب نوٹس جاری کیاگیا تھا تو اس دن نیب کی اپیل عدالت کے سامنے موجود ہی نہیں تھی، عدالت کے سامنے اس وقت ڈاکٹر عاصم کا نام ای سی ایل سے نکالنے کیلئے اپیل زیرسماعت تھی۔ اس غلطی کی نشاندہی ہونے پر سپریم کورٹ نے ڈاکٹر عاصم کی ضمانت منسوخی کیلئے دائر نیب کی درخواست پرمدعا علیہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت بیس جولائی تک کیلئے ملتوی کردی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے